احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے فیصلہ سنایا۔ عدالت اسلام آباد: ( سچ نیوز) احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنا دی۔ عدالت نے نواز شریف کو3 ارب 47 کروڑ 87 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا
نے حسن اور حسین نواز کو مفرور قرار دیتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے۔ نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو کمرہ عدالت سے حراست میں لے لیا۔ عدالت نے نواز شریف کو 10 سال تک عوامی عہدے کیلئے بھی نااہل قرار دیا جبکہ العزیزیہ اور ہل میٹل جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف عدالتوں نے پاناما کیس سے اب تک تمام اہم فیصلے جمعہ کے روز سنائے تاہم العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ پیر کو آیا۔ نواز شریف کیخلاف جمعہ کے روز پہلا فیصلہ 20 اپریل 2017ء کو سنایا گیا، جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں اکثریت رائے سے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی 2017ء کو متفقہ طور نواز شریف کو نااہل کیا تو بھی جمعہ کا ہی دن تھا۔ سپریم کورٹ نے نااہلی کے خلاف نواز شریف کی نظر ثانی اپیل بھی گزشتہ سال جمعہ 15 ستمبر کو مسترد کی۔ عجب اتفاق ہے کہ احتساب عدالت نے لندن فلیٹس ریفرنس میں نواز شریف کو سزا بھی 6 جولائی 2018ء جمعہ کے دن ہی سنائی۔
العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز، سماعت کے دوران کب کیا ہوا؟
کارکن بن کر انصاف کیلئے کردار ادا کروں گی، مریم نواز کا عزم
سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں، نیب کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ میں 16 گواہان پیش کئے گئے، نواز شریف کو 15 بار اڈیالہ جیل سے پیشی کیلئے لایا گیا، دونوں ریفرنسز پر ابتدائی 103 سماعتیں جج محمد بشیر نے کی تھیں، بعد میں 80 سماعتیں جج ارشد ملک نے کیں۔
پاناما کیس: سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا
نواز شریف اور جہانگیر ترین پارلیمانی سیاست سے تاحیات نا اہل
3 اپریل 2016 کو پاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی جانب سے پاناما پیپرز کی پہلی قسط جاری کی گئی جس میں کئی پاکستانیوں سمیت میاں نواز شریف کے ان بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق دستاویزات بھی شامل تھے، جس کے بعد اپوزیشن نے کرپشن کا شور مچایا اور 5 اپریل 2016 کو اس وقت وزیر اعظم نواز شریف کا دستاویزات پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے قوم سے خطاب کیا اور جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔
16 مئی 2016 کو نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنے اثاثوں سے متعلق وضاحتی خطاب میں پاناما ليکس پر مشترکہ کميٹی بنانے کی تجويز دی۔ کرپشن کے شو رکے ساتھ 24 اگست 2016 کو جماعت اسلامی کی جانب سے ملک کی عدالت عالیہ میں وزیر اعظم شریف کی نااہلی کے لیے درخواست دائر کی۔ جس کے بعد 29 اگست کو نااہلی کے لیے پی ٹی آئی نے بھی سپریم کورٹ کا رخ کیا۔
20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کی دائر کردہ درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 28 اکتوبر کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور جمالی کی سربراہی میں ایک لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔ جس کے بعد 9 دسمبر کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی کی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد مقدمے کی سماعت کرنے والا بنچ تحلیل ہو گیا۔
مجھے کسی قسم کا خوف نہیں، میرا ضمیر مطمئن ہے: نواز شریف
نوازشریف کو علم ہے ان کے ساتھ کیا ہو گا: جاوید ہاشمی
4 جنوری 2017 کو نااہلی ریفرنس کی سماعت کے لیے جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کور ٹ کا نیا بنچ تشکیل دیا گیا اور مقدمے کی از سر نو سماعت کا آغاز کیا گیا۔ 26 جنوری 2017 کو کیس کی سماعت کے دوران شریف خاندان کی منی ٹریل کے متعلق قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کا خط سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔
23 فروری 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تمام گواہان مقدمے کی سماعت مکمل کرتےہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ 20 اپریل کو محفوظ شدہ فیصلہ سنایا گیا اور فیصلے میں 2 جج صاحبان کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا اور 3 ججوں کے فیصلے میں مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی گئی۔ جس کے بعد 3 مئی کو پاناما بنچ کی نے 6 افراد پر مشتمل جے آئی ٹی تشکیل دی۔
22 مئی 2017 کو جے آئی ٹی نے اپنی پہلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی، 28 مئی 2017 نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے بعد میں جے آئی ٹی پیشی کی تصویر لیک ہونے سے کافی شور شرابا سنا گیا، حسین نواز کے بعد 5 جولائی کو مریم نواز شریف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئیں، جس کے 2 دن بعد جے آئی ٹی نے سوالات کے لیے قطری شہزادے کو اپنے محل یا پھر دفتر آنے کی دعوت دی اور جنہوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا۔
ٹھیک 3 دن بعد 10 جولائی کو پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر عدالتی کارروائی شروع کر تے ہوئے 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نےاس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا اور نواز شريف اور ان کے بچوں کے حوالے سے نيب ميں ريفرنس دائر کرانے کے احکامات جاری کیے۔
28 ستمبر 2017 نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسز بنائے۔ 19 ستمبر 2017 العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور ملزمان قرار دیا گیا۔ 3 جولائی 2018 احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت نے نواز شریف کو 10 برس، مریم نواز کو 7 برس اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت سناتے ہوئے نواز شریف کو 80 لاکھ اور مریم نواز کو 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی کیا۔ 12 جولائی 2018 لندن سے وطن واپسی پر نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد پاکستانی سیاست میں کافی ہلچل دکھائی دی۔
19 ستمبر 2018 اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم اور صفدر کی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا