ٹرمپ کارڈ یا اپوزیشن کی تباہی”؟؟؟
عمران خان نے جو سرپرائز متحدہ نیب زدہ اور کرپٹ اپوزیشن کو دیا ہے اس کے بعد کروڑوں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔جو سیاسی ماحول پچھلے تقریبآ ایک ماہ سے پاکستان میں بنا ہوا تھا اور جس طریقے سے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کی عالمی سازش کی جارہی تھی وہ پاکستان کے عوام کے لئے بالکل قابل قبول نہیں دکھائی دے رہا تھا۔کل رات تک بھی پاکستانی عوام عمران خان کی ممکنہ سبکدوشی پر افسردہ دکھائی دے رہی تھی۔عمران خان کو سیاست نہ سمجھنے اور سیاسی داؤ پیچ کا ماہر نہ ہونے کا طعنہ دینے والے تمام مافیاز کے ساتھ جو ہاتھ عمران خان اور فواد چوہدری نے کیا ہے اس نے مجھے فواد چوہدری کے انکل سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف کی یاد دلا دی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سےجب 1993 میں مرکز اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومتیں بحال کی گئیں تھیں تو پنجاب میں اسمبلی توڑنے کی تحریک کی تاریخ پر نواز شریف وغیرہ عدالت میں گئے تھے اور عدالت میں فیصلہ نواز شریف وغیرہ کے حق میں آ گیا تھا لیکن اسمبلی بحال کرنے کے چند منٹوں کے بعد ہی اس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری الطاف نے دوبارہ اسمبلی توڑ کر نواز شریف وغیرہ کو مٹی چاٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اپوزیشن کی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد توسپکیر قومی اسمبلی کی رولنگ کے مطابق مسترد کیا جا چکا ہے اور عمران خان اور ان کی ٹیم نے اپوزیشن کو چاروں شانے چت کر کے ایک نئی آہینی و سیاسی بحث چھیڑ دی ہے۔اس وقت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر پاکستان قومی اسمبلی بھی توڑ چکے ہیں اور مجھے کامل یقین ہے کہ ہنجاب۔خیبر پختونخوا اور دوسری تمام صوبائی اسمبلیوں کو بھی اب جانا پڑے گا اور ملک نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا یے۔مجھے یہ حقیقت لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس وقت ملک بھر میں عمران خان کا بیانیہ نہایت تیزی سے پھیل چکا ہے کہ موجودہ اپوزیشن کی لائی ہوئی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی فنڈنگ و مدد کا بھرپور ہاتھ تھا۔میں لاتعداد ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جو عمران خان کے بدترین مخالف تھے لیکن اس مشکوک عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ان کے موقف میں تبدیلی آ چکی ہے اور اکثریت یہ کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ اس موقعہ پر اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ملک و قوم سے زیادتی ہے اور اس تمام عمل میں بیرونی ہاتھ کا عمل دخل ہے جو ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔پاکستان کے عوام کی اکثریت اس وقت اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کو عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کی بیرونی کوشش کا شاخسانہ قرار دیتے ہوے عمران خان کے بیانیہ کی طرف دار راغب ہے اور یہ عمران خان کی سیاسی کامیابی یے۔عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سال سے زیادہ اقتدار کی تمام ناکامیوں کو اپوزیشن کی بدترین شکست میں تبدیل کر دیا۔
مجھے اس عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی اور ناکامی سے قطع نظر منظر کے اس سیاسی منظر نامہ پر حیرت ہورہی تھی کہ جس میں نیب زدہ اور پولیس مقابلوں کا ماہر شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان بننے جا رہا تھا جبکہ حمزہ شہباز جو کہ عدالتوں۔نیب اور ایف۔ائی۔اے وغیرہ کو اربوں روپے کی کرپشن میں مطلوب ہے وزیر اعلی پنجاب بننے کا خواب دیکھ رہیے تھے بلکہ اراکین اسمبلی کی بدترین خریدوفروخت کے بعد تقریبآ وزیر اعظم اور وزیر اعلی بنے دکھائی دے رہیے تھے۔میری اپنی اطلاعات کے مطابق دونوں باپ بیٹا بیوروکریسی میں اپنے وفاداروں کو اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ بیوروکریسی کو دھمکانے میں بھی مصروف ہو چکے تھے۔لیکن سارے سپنے کہیں کھو گئے۔شہباز شریف اور حمزہ وغیرہ کو مسند اقتدار پر بٹھانے کا مطلب صرف اور صرف پاکستان کو بنانا اسٹیٹ کے مترادف ہوتا۔اس ساری صورتحال میں جو نقصان مسلم لیگ نواز کو ہوا اس کا کبھی انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔آصف علی زرداری نے اس تمام صورتحال میں ایک طرف اراکین اسمبلی کی شرمناک خریدوفروخت کا کام دکھایا جبکہ دوسری جانب اس نے شریف برادران کو جو دھوبی پٹکا مارا وہ شریف برادران کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا۔میرا استدلال تو یہ اب بھی یہ ہی ہے کہ یہ دنیا کے کس ملک میں ہو سکتا ہے کہ کرپشن کیسز میں ملوث شخص یا اشخاص کو کس طرح ایک منتخب حکومت کے اراکین کو خرید کر ایک منتخب وزیر اعظم کو فارغ کر کے اقتدار دے دیا جاے۔ماضی میں چھانگا مانگا اور سوات میں اراکین اسمبلی کو مبحوس رکھ کر جمہوریت کا داغدار کرنے والے اپنا شرمناک فعل پھر شروع کر چکے تھے اور حکومت نے آہین پاکستان کے آرٹیکل 5 کے تحت اس تحریک کو بیرونی ایجنڈا قرار دیتے ہوے مسترد کر دیا ہے اور اب اپوزیشن جسے میں بھان متی کا کنبہ کہتا ہوں تلملاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔نیب کے ادارے کو ختم کرنے اور نواز شریف جو پاک فوج کو سرعام گالیاں نکالتے دکھائی دیتے تھے کو اقتدار میں لانا کس طرح جاہز قرار دیا جا سکتا ہے؟؟یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی سوچ رہا ہے اور کہتا دکھائی دے رہا ہے اگر پاکستان کو پھر ان کرپٹ عناصر کے ہی حوالے ہی کرنا تھا تو پھر کرپشن کو پاکستان میں جاہز قرار دے دینا چاہیے۔
بہرحال پارلیمنٹ سپریم ہے اور آہین ساز ادارہ ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے چند روز قبل ہی ایک آبزرویشن دی تھی کہ اسپکیر قومی اسمبلی کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کر سکتی۔اخری خبریں آنے تک سپریم کورٹ آف پاکستان نے لارجر بینچ کی تشکیل دے دیا ہے۔اس وقت صدر پاکستان وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ چکے ہیں اور پنجاب میں گورنر بھی تبدیل ہو چکا ہے۔سیاسی صورتحال بہت تیزی سے تبدیل ہو چکی ہے اور اپوزیشن جو اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے حق کو ختم کرنے کے ایجنڈے سے بھی حکومت میں آ رہی تھی کہ بہت بڑی ناکامی ہو چکی ہے اور تقریبآ ایک کروڑ پیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے قومی دھارے سے باہر نکالنے کی ایک بہت بڑی سازش بھی ناکام ہو چکی ہے۔پاکستان کی سیاست میں اس وقت اپوزیشن ایک ایسے بھنور میں پھنس چکی ہے کہ جس سے نکلنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔علم خان۔جہانگیر ترین اور دوسرے منحرف بلکہ بکے ہوے اراکین اسمبلی کا نہ صرف اپنے حلقوں میں جانا مشکل ہو چکا بلکہ ان کی سیاست کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا۔اپنے ۔پاکستان کے عوام کی اکثریت زرداری۔فضل الرحمان اور شریف برادران کو اب استعمار سامراج اور مغربی قوتوں کا ایجنٹ سمجھ رہئے ہیں۔مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی جلسے جلوس کرنے میں شدید عوامی مذاحمت کا سامنا دکھائی دے گا۔آنے والے دنوں میں سیاسی میدان یا سپریم کورٹ میں جو بھی کچھ ہوتا ہے اس سب سے قطع نظر کرپٹ ترین اشرافیہ ملکی دولت لوٹنے والوں کو عمران خان چاروں شانے چت کر چکا ہے اور اس وقت قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی اور نئے انتخابات کا اعلان بھی ہو چکا۔اس ساری صورتحال کو فاہدہ عمران خان کو ہو گا۔قومی اسمبلی اورکابینہ تحلیل ہو چکی۔پاکستان کے مساہل کا حل اب نئے انتخابات ہی ہیں اور اس مرتبہ عوام کا موڈ کچھ اور ہی دکھائی دے رہا ہے۔تمام اپوزیشن رہنما و جماعتیں باہمی مفادات اور بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں اور مجھے ان کی سیاست پر گہرے کالے بادل چھائے ہوے دکھائی دے رہیے ہیں۔مجھے تو انتظار رہئے گا کہ بیرونی ایجنڈے کے تحت منتخب حکومت کو ختم کرنے والے تمام عناصر پر مقدمات کب درج ہوں گے اور اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد اسپیکر کی کرسی پر بیٹھ کر سابق اراکین اسمبلی کےغیر قانونی و غیر آہینی اجلاس کی صدارت کرنے والے ایاز صادق کے خلاف کاروائی کب کی جاتی ہے۔اخر میں یہ ضرور لکھوں گا کہ اب اپوزیشن کچھ بھی کر لے پاکستان میں نئے انتخابات ہی ہونے جا رہئے ہیں جس کا اعلان وزیر اعظم پاکستان کر چکے ہیں۔اگر کسی کو میری بات سے اختلاف ہو تو ماضی میں محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کرنے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر سپریم کورٹ کے دیئے گئے فیصلے کو ضرور دوبارہ پڑھیں۔۔۔