کاشف بشیر خان
موجودہ سیاسی صورتحال اتنی سیدھی نہیں ہے اور اگر اسے ہم بین الاقوامی تناظر میں دیکھیں تو آج روس کی حکومت کی ترجمان ماریہ زرووا نے جو بریفنگ دی ہے وہ پاکستان میں حکومتی تبدیلی کی اس ناکام کوشش کو عمران خان کےخلاف امریکی سازش اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی قرار دے رہی ہیں۔ماریہ زخارووا نے کہا ہے کہ "وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو روس کا دورہ کرنے سے روکنے میں ناکامی کے بعد امریکہ نے سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنماؤں کے ذریعے عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی”.کل ماسکو میں امریکہ کی پاکستان اور سری لنکا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور اپنی پسند کی حکومتیں لانے کی کوششوں کے خلاف روسی عوام نے بہت بڑا جلوس بھی نکالا جس میں صدر پیوٹن اور عمران خان کے حق میں بینر اٹھاے گئے اور امریکہ کی ان ممالک میں مداخلت کی شدید مذمت کی گئی۔بارہا لکھ چکا کہ عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہیے ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی بھی آزادانہ ہی ہونی چاہیے۔آزادانہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم امریکہ یاکسی اور طاقت سے پاکستان کی لڑائی کرلیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی عالمی بلاک کا حصہ بنے ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں۔دورہ روس بھی اسی آزاد خارجہ پالیسی کی جانب ایک مثبت قدم تھا جو امریکہ کو نہیں بھایا۔ماضی میں ہماری حکومتیں اور حکمران قومی خود مختاری اور سالمیت کو پس پشت ڈال کر وہ سب کچھ کرتے رہئے جو انہیں امریکہ کہتا رہا۔داراصل پاکستان کی خودمختاری کا سودا کرنے والے حکمرانوں کی لسٹ لمبی ہے اور ریاست پاکستان کی خود مختاری کے سودوں کی وجہ سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا رہا جو سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہیں۔لیکن جو صورتحال 8 مارچ کو عمران خان کی حکومت کے خلاف مرکز میں بیرونی حمایت اور مدد سے تحریک عدم اعتماد لا کر پاکستان میں شدید ترین عدم استحکام پیدا کر دیا گیا۔تحریک عدم اعتماد تو ہر جمہوری نظام میں اپوزیشن کا حق ہوتا ہے لیکن جس ملک میں تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہو اور حکومتی اراکین اسمبلی کو خرید کر حکومت کو فارغ کرنے کی کوشش ہو تو پھر تو عمران خان درست کہہ رہئے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہونے دیا گیا تو پھر کل بھارت کچھ ارب خرچ کر کے اپنے پسندیدہ اشخاص کو مسند اقتدار پر بٹھا دے گا۔اج بھی لاہور کے شاہراہ قائد اعظم پر ایک پارسی کے ہوٹل میں تقریبا دو درجن ایم۔پی۔ایز کو حمزہ شہباز اور علیم خان وغیرہ خرید کر چھپاے بیٹھے ہیں جو نہایت ہی افسوسناک ہے۔ضمیر کے سودے سرعام ہو رہئے ہیں اور آہین کی تشریح کرنے والے ادارے سندھ ہاوس۔میریٹ ہوٹل اور لاہور کے آواری ہوٹل میں ہونے والی خریدوفروخت پر حیران کن طور پر خاموش ہیں۔قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے سبب مسترد ہونے کے بعد پاکستان میں قومی اسمبلی اور کابینہ تحلیل ہو چکی جبکہ پنجاب میں اقتدار حاصل کرنے کا غلیظ کھیل کھلم کھلا کھیلا جا رہا ہے۔اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ پنجاب اسمبلی کا مستقبل بھی کوئی نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں اسے بھی ٹوٹنا ہی ہے۔لیکن سو چنے کی بات ہے کہ اپوزیشن بلکہ نواز لیگ بالخصوص حکومت حاصل کرنے میں اتنی بے چین کیوں ہے؟مرکز میں تو اب اسے حکومت حاصل ہوتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ قاسم سوری کی رولنگ کے بعد عمران خان نے فوری قومی اسمبلی توڑ دی اور صدر پاکستان نے اس کا نوٹیفیکیشن جاری کر کے سرکاری طور پر کابینہ کے تمام وزراءاور وزیر اعظم کو ڈی۔نوٹیفائی بھی کر دیا۔اس کے بعد جزوقتی وزیر اعظم عمران خان جو تحریک انصاف کے چیرمین بھی ہیں اور سابق اپوزیشن لیڈر اور صدر نواز لیگ شہباز شریف کو نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کے لئے نام بھیجنے کےخط بھی لکھ دیئے گئے۔تحریک انصاف نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا نام صدر مملکت کو بھیج دیا ہے جبکہ اپوزیشن نے صدر پاکستان کو کوئی نام نہیں بھیجا اور وہ اب تک اس چٹھی کے کی آئینی حیثیت کو ماننے سے انکاری ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں عوام کی مشکلات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور ان کی زندگیاں مشکل ترین ہو چکی ہیں۔ماضی کی حکومتوں کو قصور وار تو ٹہرایا جاتا رہا لیکن یہ لکھنا ضروری ہے کہ جہاں پر طویل مدتی منصوبے شروع کئے گئے وہاں پر کم وقتی منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا۔لیکن ان تمام کا ذمہ دار عمران خان کو بھی ٹہرانا مناسب نہیں۔پچھلے تیس سال سے یہ سنتے سنتے کان پک گئے کہ جانے والی حکومت خزانہ خالی کر گئی اور ملک کو تباہ کر گئی۔یہ چلن نواز شریف اور بینظیر کی نوے کی دہائی میں آنے والی دو دو حکومتوں سے شروع ہوا تھا اور اس کا سلسلہ ابھی تک نہیں تھم سکا۔خیر اس وقت اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے رولنگ دینے کے اختیار کے خلاف اپوزیشن سپریم کورٹ میں گئی ہوئی ہے اور تادم تحریر اس کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔لیکن میرے لئے اپوزیشن جماعتوں کا نئے انتخابات سے بھاگنا دلچسپی کا باعث ہے۔داراصل شہباز شریف اور زرداری وغیرہ حکومت پر قبضہ کر کے اول تو ان پر کرپشن کے کیسز بنانے والے اداروں اور عدلیہ کو نیچا دکھانا چاہتے تھے دوسرا ان کا سب سے بڑا مقصد نیب کو ختم کرنا تھا۔شریف برادران 1985 سے اب تک تمام انتخابات دھاندلی کے ذریعے جیتتے چلے آئے ہیں اور 2018 کے انتخابات میں بھی ان کے انتخاب جیتنے کے حربے کام آئے تھے جس کی وجہ سے عمران خان کو اکثریت نہیں ملی تھی۔بیرون ملک تقریبا ایک کروڑ پاکستانیوں کو ووٹ دے ڈالنے کے حکومتی فیصلے کو واپس کرنا اور ای۔وی۔ایم کے ذریعے ووٹنگ نہ کروانا بھی اپوزیشن کی حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد اولین ترجیحات میں شامل تھا لیکن ان کے خواب چکنا چور ہو چکے اور اب بات نگران حکومت تک پہنچ چکی یے۔