اِدھر گونڈ نے دروازہ کھولا،اُدھر آدم خور چیتا برق کی طرح لپک کر اس پر آیا۔ دوسرے گونڈ نے بے مثل جی داری کا ثبوت دیتے ہوئے ا پنا نیزہ تاک کر مارا۔ یہ نیززہ لکڑی کی دیوار میں پیوست ہو گیا اور چیتے کی توجہ ایک سیکنڈ کے لیے نیزے کی طرف مبذول ہوئی۔عین اسی لمحے میں نے اس کے سر کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ گولی چیتے کے دماغ پر بیٹھی، اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ مرتے مرتے بھی وہ اچھل کر میری جانب آیا۔ میں نے دھائیں سے دوسری گولی بھی چلائی۔یہ گولی بھی گردن میں لگی اور چیتا میرے قدموں پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔ چیتے کے مارے جانے سے لوگ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور سارے گاؤں میں لیے لیے پھرے۔یہ چیتا کم و بیش دس بارہ آدمیوں کو ہڑپ کر چکا تھا اور جو مویشی اس نے ہلاک کیے،وہ تو تعداد میں بہت زیادہ تھے۔اس کا حوصلہ یہاں تک بڑھ چکا تھا کہ دن دہاڑے لوگوں کے کچے مکانوں میں جھونپڑیوں میں گھس کر بچوں کو اٹھا لے جاتا۔ بعد میں جب اس کی لاش کا معائنہ کیا گیا، تو پتا چلا کہ اس کی ٹانگ مدت سے زخمی تھی اور یہ کسی ایسے اناڑی شکاری کا کارنامہ تھا جس نے چیتے کی ٹانگ پر گولی مار کراسے شکار کھیلنے کی پھرتی اور چالاکی سے محروم کر دیا تھا۔ مجبوراً یہ درندہ آدمیوں کے گوشت اور لہو سے اپنا پیٹ بھرنے لگا۔یہ پہلا آدم خور چیتا تھا، جسے میں نے سولہ برس کی عمر میں مانگے تانگے کی بندوق سے ہلاک کیا۔ اس کامیابی نے جہاں میرے حوصلے بلند کیے، وہاں مجھے مستند شکاری ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ مدھیہ پردیش کے جنگلوں سے یہ خبر نکل کر پنجاب کے شہر گجرات تک پہنچی اور خاندان کے لوگوں نے اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ بالآخر میں نے اپنے لیے ایک راستہ چن ہی لیا۔
اور یہ راستہ تھا چوبیس گھنٹے اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرنے کا۔ایسے واقعات کی کمی میری زندگی میں نہیں رہی جن میں سے ہر واقعہ ایسا ہی ہے،گویا مجھے دوبارہ جینے کا موقع خدا نے فراہم فرمایا۔جس سال میں نے آدم خور چیتے کو مارا، اس سے ا گلے برس سردیوں کے دن تھے۔۔۔میں علی الصبح مزے مزے میں پیدل چلتا ہوا گاؤں گا سن سے قصبہ لودھی دھانہ جارہا تھا کہ راستے میں گھندن گھاٹ پرمیری ملاقات اچانک ایک ببر شیر سے ہو گئی۔شیر مجھ سے صرف دس قدم کے فاصلے پر تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ ہم دونوں اپنی اپنی دھن میں چلے جارہے تھے۔شیر نے مجھے دیکھا نہ میں نے شیر کو۔۔۔اور دیکھا، تو اس وقت جب ہمارے مابین فاصلہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ میں اس وقت خالی ہاتھ تھا۔ سمجھ گیا کہ قضا نے آن دبوچا، شیر مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا اور اگر میں پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کروں گا تووہ غضب ناک ہو کر لازماً میرا تعاقب کرے گا۔۔۔غرض میں بے حس و حرکت اپنی جگہ کھڑا شیر کو تکتا رہا۔شیر اپنی جگہ دم بخود تھا۔۔۔کوئی تیس سیکنڈ تک ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھیں میں آنکھیں ڈالے گھورتے رہے۔پھر شیر نے اپنی دیرینہ شرافت اور وضع داری کا ثبوت دیتے ہوئے ہلکی سی آواز نکالی جیسے کہہ رہا ہوں،میاں صاحب زادے تم ہمارے علاقے میں بغیر اجازت کیوں آگئے؟میں نے خاموش زبان میں عرض کیا کہ اے جنگل کے بادشاہ!میرا ارادہ تجھے نقصان پہنچانے کا ہر گز نہیں ہے۔میں اس وقت تنہا ہوں اور اپنی راہ پر جارہا ہوں،تو بھی اپنی راہ لے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ شیر نے رخ موڑا اور آہستہ آہستہ چلتا جنگل میں غائب ہو گیا۔۔۔میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا ۔گھاٹ پر جا کر ہاتھ منہ دھویا اور سیٹی بجاتا ہوا اطمینان سے اپنی منزل کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے یقین کامل تھا کہ شیر میرا پیچھا نہیں کرے گا۔
لوگ جب اس قسم کے واقعات سنتے تو پیش گوئیاں کردیتے کہ یہ لڑکا کسی دن ضرور شیر یا چیتے کا لقمہ بن جائے گا۔مگر45برس اسی طرح گزر گئے اور مجھے خراش تک نہ آئی، حالانکہ اسی مدت میں کوئی ڈیڑھ سو درندوں کو زمین پر کھڑے ہو کر دوبدو جنگ کے بعد ہلاک بھی کیا۔
قصبہ لودھی دھانہ جنگل کے مرکز میں تھااور مجھے بڑا شکار ڈھونڈنے کے لیے زیادہ دور جانے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ان دنوں اس جنگل میں شیر، چیتے، ریچھ،سور اس کثرت سے تھے کہ دنیا کے بہت کم جنگلوں میں ہوں گے۔روزانہ کسی نہ کسی درندے سے مڈبھیڑ ہوتی ہی رہتی تھی۔۔۔درندے تو خیر درندے تھے،ایک روز جب کہ میں ندی میں نہا رہا تھا، مگر مچھ نے میری ٹانگ گھسیٹنے کا ارادہ کیا۔ مجھے بالکل خبر نہ تھی کہ اس ندی میں مگر مچھ بھی موجود ہے۔برسات کے دنوں میں کہیں سے تیرتا ہوا آگیا ہو گا۔اگر میں اسے نہ دیکھ لیتا، تو وہ مجھے لے ہی گیا تھا۔ خاصا بڑا مگر مچھ تھا۔ میں جلدی سے کنارے پر پہنچا اور مردوں کی طرح دھم سادھ کر لیٹ گیا۔ رائفل قریب ہی پڑی تھی اور میرا جگری دوست بابو خان ندی کے دوسرے کنارے پر تھا، اسے آواز دے کر میں نے خبردار کر دیا اور وہ چکر کاٹ کر رسیوں کے بنے ہوئے پل کے ذریعے ندی پار کرکے میری طرف آگیا۔بہت دیر انتظار کے بعد مگر مچھ نے اپنی لمبی تھوتھنی پانی سے باہر نکالی اور کنارے کی طرف آیا۔ہم نہایت صبر سے اس کا انتظار کررہے تھے۔کنارے پر آن کر مگر مچھ بہت دھیمے دھیمے چھپکلی کی طرح ہماری طرف بڑھنے لگا۔ میں کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جب وہ خاصا قریب آگیا تو میں نے جھٹ بندوق اٹھائی اور اس کے پیٹ میں گولی مار دی۔گولی کھا کر مگر مچھ الٹا ہو گیا۔بابو خان نے رسی کا پھندا بنا کر اس کی تھوتھنی میں ڈالا اور ہم دونوں نے سخت جدوجہد کے بعد اسے کنارے سے دور گھسیٹ لیا۔ہم سمجھے کہ وہ مر گیا،حالانکہ وہ صرف بے ہوش ہوا تھا اور اس میں خاصی جان باقی تھی۔مگر مچھ کو ہم نے بیل گاڑی پر لادا اور گاؤں لے چلے۔ہم دونوں اس کی طرف سے پیٹ موڑے بیٹھے باتیں کرتے جارہے تھے کہ ہماری بے خبری میں اسے ہوش آیا اور اس نے منہ کھول کر پہلے تو رسی کے پھندے سے آزادی حاصل کی، پھر لپک کر بابو خان کا بازو اپنے جبڑے میں دبا لیا۔ اس خوف اور دہشت کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے جو اس موذی مگر مچھ کو زندہ دیکھ کر ہم دونوں پر طاری ہوئی۔میرے قریب ہی گوشت کاٹنے کا لمبا سا چھرا پڑا تھا۔ میں نے وہی چھرا اٹھایاا ور پوری قوت سے مگر مچھ کو تھوتھنی کے نچلے حصے میں گھونپ دیا۔خون کا زبردست فوارہ برآمدہوا،میں نے پے درپے کئی وار کیے ا ور اس وقت چھرا ہاتھ سے رکھا جب مگر مچھ کا دم نکل گیا۔(جاری ہے)