واشنگٹن(سچ نیوز ) پینٹاگون کے چیف نے دعویٰ کیا ہے کہ واشنگٹن افغانستان سے اپنے فوجیوں کی یکطرفہ واپسی نہیں کرے گا اور امن مذاکرات میں کابل حکومت کولازمی حصہ بنایا جائے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق قائم مقام سیکریٹری دفاع پیٹریک شنہان نے کہا کہ افغانتسان سے امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ نیٹو سے مشاورت کے بعد ممکن ہوگا۔واضح رہے کہ نیٹو افغانستان میں عسکری تربیت اور ’سپورٹ میشن‘ کی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں تاہم نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینفرسٹولٹنبرگ نے اشرف غنی کی افغان حکومت کی امن مذاکرات میں شمولیت میں تاخیر پر خبردار کیا۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی چاہتے ہیں لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکا کابل میں پائیدار امن قائم کیے بغیر انخلا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’افغان حکومت کے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔بعدازاں برسلز میں نیٹو ڈیفنس وزرا سے بات چیت کے بعد پیٹریک شنہان نے بیان دیا کہ واشنگٹن اکیلا ہی فیصلہ نہیں کرے گا،میں محسوس کرتا ہوں کہ سفیر زلمے خلیل زاد کو ضرورت کے مطابق سیاسی اہمیت نہیں دی جارہی، ہمیں ضرورت ہے کہ ممکنہ طور پر امن پر بات کی جائے۔ رواں برس فروری میں طالبان نے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے رواں ماہ مذاکرات کے لیے 14رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔منگل کو اعلان کردہ طالبان کی ٹیم کی قیادت ملا عباس استنکزئی کریں گے جبکہ ٹیم میں گوانتاناموبے میں امریکی قید میں رہنے والے 5 سابق قیدی بھی شامل ہیں جنہیں امریکی قیدیوں کے بدلے 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران طالبان اور امریکا کے درمیان افغانستان میں امن کے قیام اور 18سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں تیزی آئی ہے۔امریکی صدر ڈونلنڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اپریل میں افغانستان سے نصف امریکی فوجی واپس لوٹ جائیں گے۔