واشنگٹن (سچ نیوز) امریکہ کے سابق چیف آف سٹاف میجر جنرل ہاورڈ ڈالاس تھامپسن کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے کرتا دھرتاﺅں نے روس کے بڑھتے ہوئے ہائپر سونک خطرے کے خلاف خاطر خواہ دفاعی نظام تیار نہیں کیا۔ روس کے بعض ہائپر سونک میزائل ایسے ہیں جو آواز کی رفتار سے 27 گنا زیادہ رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ آواز کی رفتار 1200 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور روس کے میزائل 32 ہزار 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتے ہیں۔جنرل تھامپسن نے اپنے ایک کالم میں روسی اور امریکی دفاع کا موازنہ پیش کیا۔ انہوں نے لکھا کہ فلموں میں سٹارک کے آئرن مین بنانے کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا میزائل دفاعی نظام اور ہمارے لوگوں کے دماغ روس کے ہائپر سونک خطرے کا مقابلہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔دفاعی تجزیہ کاروں کی جانب سے بار بار کہا جاتا ہے کہ ہائپر سونک میزائلوں کے مقابلے کا نظام تیار کیا جائے لیکن ہم اس چین کے پیچھے لگے ہوئے ہیں جس نے ایک سال میں اتنے تجربات کیے ہیں جتنے امریکہ نے دس سال میں بھی نہیں کیے۔ روس کی جانب سے دسمبر میں اوینجرڈ میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے جس کی رفتار 27 میک ( 32 ہزار 400 کلومیٹر فی گھنٹہ ) ہے اور اسے رواں سال روسی فوج کے حوالے کردیا جائے گا۔انہوں نے مزید لکھا کہ امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم صرف بین البراعظمی میزائل کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ امریکہ کے میزائل دفاعی سسٹمز پیٹریاٹ اور تھاڈ میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ہائپر سونک میزائل کا راستہ روک سکیں کیونکہ یہ ڈیفنس سسٹمز اس بین البراعظمی میزائل کا پتا لگاتے ہیں جس کی ڈائریکشن پہلے سے معلوم ہوتی ہے لیکن ہائپر سونک میزائل ریڈار سے بچ کر انتہائی تیزی کے ساتھ نچلی پرواز کرکے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔واضح رہے کہ جس وقت روس نے اوینجرڈ ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا تھا اس وقت روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا تھا کہ وہ اپنے تمام حریفوں کو ٹیکنالوجی کے اس میدان میں شکست دے چکے ہیں، جو چیز روسی فوج کے پاس اب آپریشنل حالت میں موجود ہے ، ان کے حریف ڈیڑھ سے 2 سال بعد اس کا تجربہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔