کابل(سچ نیوز)افغان طالبان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے نکلنے کے لیے سنجیدہ ہیں،ہم اسلامی نظام مختلف سیاسی فریقین سے مذاکرات کے بعد قائم کریں گے، اب طالبان خواتین کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں۔غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا سے امن معاہدہ اصولی فریم ورک تک پہنچ چکا ہے جس پر اگر عمل درآمد ہوتا ہے اور اگر امریکی سنجیدہ اقدامات اٹھاتے ہوئے معاہدے پر کاربند رہتے ہیں تو ہمیں امید ہے کہ امریکا، افغانستان پر اپنا قبضہ ختم کردیگا، بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے نکلنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہمارا پہلا مقصد ہے، دوسرا یہ کہ ہم ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جس سے افغان عوام کی یہ امید ختم ہوتی جارہی ہے کہ شدت پسند، ملک میں 2001 سے قائم جمہوری نظام کا حصہ بنیں گے۔ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ہم اسلامی نظام مختلف سیاسی فریقین سے مذاکرات کے بعد قائم کریں گے، حالانکہ وہ اب تک قابضین کے چھتری تلے موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کابل حکومت اس نظام کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتی تو یقیناً جنگ کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی جبکہ طالبان اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنا چاہتے۔طالبان ترجمان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 90 کی دہائی میں طالبان کی حکومت نے کئی معاشی، اقتصادی اور سیکیورٹی مسائل کا سامنا کیا جس میں ایک بڑا مسئلہ مرد و خواتین میں حد سے زیادہ فرق کرنا تھا۔واضح رہے کہ طالبان کی حکومت میں خواتین کو گھروں تک محدود رکھا جاتا تھا،گھر سے باہر جانے کے لیے ان کے ہمراہ مرد کا ہونا لازمی تھا اور انہیں سختی سے چہرہ ڈھانپنے کا پابند کیا جاتا تھا، جبکہ لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی تھی تاہم ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ اب طالبان، خواتین کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں،ہم خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کریں گے، جبکہ شریعت میں خواتین کو جن چیزوں کی آزادی ہے انہیں اس کی اجازت ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ امریکا سے مذاکرات کا اگلا دور 25 فروری کو دوحہ میں ہوگا۔