اسلام میں عورتوں کے حقوق
(تجزیہ نگار) بشریٰ جبیں
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتا تھا, حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔ لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وعملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
ایک کہاوت ہے۔۔۔۔
اگرعورت اچھی ہے تو ریاست بھی اچھی ہو گی۔ اگر وہ خراب ہے تور یاست بھی خراب ہوگی۔جس طرح ستون کو دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح معاشرہ میں عورت کی حیثیت کو دیکھ کر قوم کی عظمت اور سربلندی کا اندازہ باآسانی کیا جا سکتا ہے ۔ معاشرے کا یہ ستون اگر مضبوط ہے تو اس پر قوم کے امن وعافیت کی چھت ڈالی جاسکتی ہے۔
اس وقت یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اگرعورت کا معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اتنا اہم رول ہے تواس کو وہ اہمیت کیوں نہیں دی جاتی جس اہمیت کی وہ مستحق ہے۔ اگر عورت ہی معاشرے کی بنیاد ہے تواس بنیاد کو مضبوط کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی۔ اسلام سے پہلے عورت کی زبوں حالی سے ہر ایک واقف ہے کہ اس کی حیثیت پیر کی جوتی کے برابر بھی نہیں تھی۔ پھرایک روشن زمانہ آیا۔ اسلام نے کہا کہ”’عورت ‘‘کو خرید و فروخت کا سامان مت بنائواور موت کے بعد اسے اس طرح مت تقسیم کرو جس طرح تم وراثت کی دیگر چیز یں تقسیم کرتے ہو۔ اگر یہ ماں ہے تو اس کے قدموں تلے اپنی جنت تلاش کرو،اگر یہ بیٹی ہے تو اس کی بہتر ین پرورش کے عوض تمہیں جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ اگر یہ بہن ہے تو اس کے باعث تم صدقہ وجہاد کے ثواب کو حاصل کر وگے اور اگر یہ بیوی ہے تو یہ تمہار الباس ہے،تمہیں ڈھانپ لینے والی اور تمہاری تمام ترکجیوں پر پردہ ڈال کرتم سے محبت کر نے والی۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا ایک نقشہ دیتا ہے۔اپنے ماننے والوں کے حقوق بھی وہ صاف صاف بتاتا ہے اور فرائض بھی۔ قرآن مجید جس طرح مردوں کو مخاطب کرتا ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہدایات دیتا اور ان سے مطالبات کرتا ہے۔ اسلام کی رو سے دین کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اِنسانی مرتبے میں عورت اور مرد برابر ہیں۔ جسمانی اعتبار سے اور دائرہ کار کے لحاظ سے اگرچہ دونوں میں فرق ہے مگر بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں۔
اسلام نے اس بات کا پور اخیال رکھا ہے کہ کسی عورت کے ساتھ صرف عورت ہونے کی بنیاد پرناانصافی نہ ہونے پائے۔نہ اس کی صلا حیتیں کچلی جائیں اور نہ اس کی شخصیت کو دبا یا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺنے کوشش کی کہ اسلام نے انسانوں کو جو حقوق د ئیے ہیں ان سے مردبھی واقف ہوں اور عورتیں بھی۔ دونوں اپنے حقوق حاصل کریں اور اپنے اپنے فرائض کو اپنے دائرۂ اختیار میں بخوبی ادا کریں۔