دعا زہرا کی کہانی : حقیقت کچھ اور ہے
دو دن پہلے کہا تھا، جسطرح دعا زہرا کا کیس وائنڈ اپ ہو رہا ہے، اس میں بہت سے جھول ہیں۔ اب تک اس پر قائم ہوں۔ بچی کی دس اور ویڈیوز آ جائیں، دس اور نکاح نامے سامنے آ جائیں، اس کیس میں شروع سے آخر تک شکوک ہی شکوک ہیں۔
تین بچیاں ایک ہفتے میں کراچی سے پنجاب جاتی ہیں، نکاح ہوتا ہے، ویڈیو بیان آتا ہے۔ ایک جیسا لہجہ، ایک جیسا بیان، ایک جیسی کہانی، ایک جیسے تاثرات۔
یہ ایک ریڈ فلیگ ہے۔
دعا کراچی سے پنجاب پہنچ جاتی ہے۔ لڑکے کے گھر جاتی ہے، دروازہ کھلتا ہے اور لڑکے کے گھر والے/انکل بغیر چوں چراں اسے خوش آمدید کرتے ہیں بلکہ نکاح کروا دیتے ہیں۔
یہ ایک اور ریڈ فلیگ ہے۔
لڑکا خود بھی کم عمر ہے، بوکھلاہٹ چہرے سے عیاں ہے۔ معاشی طور پر مستحکم نہیں ہے۔ تعلیم یافتہ نہیں ہے۔ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اتنے آرام سے دعا دوسرے صوبے پہنچ جاتی ہے جو کسی میچور ہینڈلر کی پلاننگ کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ نہ دعا نہ ہی وہ لڑکا کسی طور اس ساری پلاننگ کا اہل ہے۔
یہ ایک اور ریڈ فلیگ ہے۔
معاملے کی پورے پاکستان میں بات ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں ٹویٹس ہیں، ہر ٹی وی شو اس پر بات کر رہا ہے۔ اچھی بری ہر طرح کی بات ہو رہی ہے۔ والدین پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ ایسے میں اچھے بھلے مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہاتھ پائوں چھوڑ دیتا ہے۔ مگر ایک بچی ایک موقف پر ڈٹی رہتی ہے۔ عدالت میں، ٹی وی پر سپاٹ لہجے میں بیان دیتی ہے۔ پورے پاکستان سے آنے والا پریشر بغیر کسی جذباتی سہارے کے بظاہر اکیلی فیس کرتی ہے۔ لڑکی کے پیچھے کوئی ہے جو مسلسل اس کی کائونسلنگ کر رہا ہے، اسے اعتماد دے رہا ہے اور یہ گرائونڈڈ کائونسلر وہ لڑکا ہرگز نہیں ہے۔
یہ ایک اور ریڈ فلیگ ہے۔
ثابت ہو جاتا ہے کہ بچی نابالغ ہے۔ قانون کہتا ہے اگر مجسٹریٹ کو شک ہو کہ بچے کی عمر اٹھارہ سے کم ہے تو وہ زبانی بیان پر یقین نہ کرے۔ اتنے ہائی پروفائل کیس، جس کا ذکر پورے پاکستان میں ہے، کا فیصلہ دینے میں مجسٹریٹ صرف دعا کے زبانی بیان پر فیصلہ دے دیتا ہے۔ جبکہ اسکے والدین ب فارم و دیگر دستاویزات سامنے لا رہے ہیں۔
یہ ایک اور ریڈ فلیگ ہے۔
یہ معاملہ کسی طور گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کا ہے ہی نہیں۔ اس کے پیچھے چائلڈ ابیوزر/ گرومرز ہیں ، pedophiles ہیں، ہیومن ٹریفکنگ ہے، بچیوں کو برین واش کر کے ان کا استحصال کیا جا رہا ہے یا بچیوں کو بالخصوص ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ معاملہ جو بھی ہے لیکن یہ معاملہ گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کا نہیں ہے۔ گھر میں گھٹن زدہ ماحول سے تنگ آ جانے کا نہیں ہے۔
ملک میں جتنے چائلڈ پروٹکشن بیورو ہیں، پبلک پرائیوٹ این جی اوز ہیں، انہیں فوری حرکت میں آنا چاہئے اور ویڈیو بیانات سے قطع نظر دعا کو سیف کسٹڈی میں لیکر مجسٹریٹ کے فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج کرنا چاہئے۔ legislations موجود ہیں اور واضح ہیں، ان کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔ یہ اگر اب نہیں ہوا تو چائلڈ ابیوز کو نئی راہ ملے گی۔ کم عمری کی جبری شادیوں کو نیا جواز ملے گا۔ اور وطن کی مٹی خیر سے پہلے ہی اس کام میں بہت زرخیز ہے۔ ( تخریر نگار کا تجزیہ)