اسلام آباد: (سچ نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے 8 صدارتی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست پر 4 سینئر وکلاء کو عدالتی معاونین مقرر کرتے ہوئے سیکرٹری قانون و انصاف سے 2 ہفتوں میں تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے حکومت کیسے آرڈیننس جاری کرسکتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسلم لیگ ن کی جانب سے 8 صدارتی آڑڈیننس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار رکن قومی اسمبلی محسن شاہنواز اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے حکومت کس صورت حال میں آرڈیننس جاری کرسکتی ہے، کیا پہلے سے جاری کردہ آرڈیننس واپس نہیں ہو گئے۔
وکلاء نے دلائل دئیے واپس نہیں لیے بلکہ مزید آرڈیننس بھی جاری کیے جا رہے ہیں اور ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا حکومت نے جواب جمع نہیں کرایا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ابھی کیا آرڈیننس آیا ہے۔ جس پر وکلاء نے عدالت کو بتایا نیب ترمیمی آرڈیننس آیا ہے جس میں بزنس اور بیوروکریٹس کو تحفظ حاصل ہے، آرٹیکل 89 کا سکوپ آرڈیننس جاری کرنے کے حوالے سے بہت کم ہے، حکومت آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بیوروکریٹس کو تحفظ کے حوالے سے تو 2016 سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے، جس کی روشنی میں پہلے ہی بیورو کریٹس کو اس طرح نہیں بلایا جاسکتا۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ کی گئی قانون سازی نامکمل معاملہ ہے، نیب سیاسی طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔