کوالالمپور(نیوز ڈیسک)ملائیشین ائیرلائن کی پرواز آٹھ مارچ 2014ءکے روز کوالا لمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھی۔ چار سال گزر گئے، اس طیارے کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی، مگر نہ کہیں اس کا ملبہ ملا اور نہ ہی اس کے 239 مسافروں کا کچھ سراغ مل سکا۔ گزشتہ ماہ ملائیشیا کی حکومت نے اس طیارے کے لاپتہ ہونے کے متعلق اپنی حتمی رپورٹ جاری کی ہے لیکن فضائی حادثات کی تحقیق کرنے والے کچھ ماہرین نے اس رپورٹ پر کچھ انتہائی تہلکہ خیز سوالات اٹھا دئیے ہیں۔۔فضائی حادثات پر تحقیق کا طویل تجربہ رکھنے والے ماہر آندرے ملینی کی جانب سے یہ تہلکہ خیز دعویٰ سامنے آیا ہے کہ پرواز MH370 کے لاپتہ ہونے سے پہلے ایک جنگی جہاز نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی اور اُن کے خیال میں یہ جنگی جہاز کسی اور ملک کا نہیں بلکہ ملائیشیا کا ہی تھا۔ انہوں نے ملائشین حکومت کی رپورٹ میں موجود ایسی معلومات کا سراغ لگایا ہے جن سے ظاہرہوتا ہے کہ لاپتہ ہونے والی پرواز کو عین آخری وقت پر ایک جنگی جہاز نے روکا تھا۔ ”ڈیلی سٹار آن لائن“ کے ساتھ شیئر کی گئی اپنی تحقیق میں انہوں نے بتایا ہے کہ آخری وقت پر طیارے کی ولاسٹی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ 58200 فٹ کی بلندی پر تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بوئنگ 777طیارے کے لئے 44000ہزار فٹ سے زیادہ بلندی پر جانا ناممکن ہے۔ صرف انتہائی طاقتور جنگی جہاز اتنی بلندی تک جاسکتے ہیں اور خاص طور پر اس حوالے سے روس کے جنگی جہاز سخوئی SU30 کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ملائیشین حکومت کے پاس بھی یہ جنگی طیارے ہیں اور آندرے کا خیال ہے کہ ملائیشین حکومت نے ہی MH370 کو انٹرسیپٹ کرنے کے لئے جنگی طیارے کو استعمال کیا تھا۔آندرے کا کہنا ہے کہ اس انکشاف کے بعد ملائیشین حکومت کی جانب سے اب تک بتائی گئی ہر بات مشکوک ہوگئی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد بننے والی وہ تصویر بھی میڈیا سے شیئر کی ہے جس میں دو مختلف جہازوں کی ولاسٹی کو گراف کی صورت میں دکھایا گیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس تصویرسے صاف واضح ہے کہ MH370 کو انٹرسیپٹ کرنے کے لئے ایک جنگی جہاز کو بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے یہ اندازہ بھی ظاہر کیا کہ طیارے کو ہائی جیک کیا جاچکا تھا اور ملائیشین حکومت نے ہائی جیکروں سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن طیارے یا مسافروں کی بحفاظت واپسی نہیں ہو سکی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے۔