بیجنگ(سچ نیوز) چین میں ’ازسرنو تعلیم‘ کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کو حراستی مراکز میں قید کرکے ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب اس حوالے سے مزید کچھ روح فرسا تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق ان حراستی مراکز میں مردوخواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جو خواتین حاملہ ہوتی ہیں ان کے اسقاط حمل کروا دیئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرچوں کے پیسٹ کے ذریعے خواتین کو بانجھ بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو جائیں۔گزشتہ دنوں ایک ایسے ہی حراستی مرکز سے ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں ہزاروں قیدی، جن کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے ہیں اور آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوتی ہے، گھنٹوں کے بل چل رہے ہوتے ہیں۔ ویڈیو میں چینی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی دکھائی دیتی ہے۔رپورٹ کے مطابق کچھ یغور مسلمانوں کے انٹرویوز بھی عالمی میڈیا میں آئے ہیں۔ ان میں رقیہ فرحت نامی ایک یغور مسلم طالبہ نے بتایا ہے کہ ”حراستی مراکز میں ہر اس مرد اور عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے جس کی عمر 35سال یا اس سے کم ہو۔ “ رقیہ کو 2009ءمیں گرفتار کرکے ایک حراستی مرکز لیجایا گیا تھا جہاں اس نے 4سال گزارے۔ جب اسے رہا کیا گیا تو وہ فرار ہو کر ترکی چلی گئی اور اب وہیں مقیم ہے۔گلزیرا موگدین نامی 38سالہ خاتون کا کہنا تھا کہ ”جب میں حراستی مرکز میں حاملہ ہو گئی تو انہوں نے میرا پیٹ چاک کیا اور رحم میں موجود ’جنین‘ (ناپختہ بچہ) نکال کر میرا حمل ضائع کر دیا۔ان کیمپوں میں خواتین کے پوشیدہ حصے پر مرچوں کا پیسٹ رگڑ کر انہیں بانجھ بھی بنایا جا رہا ہے۔“ انسانی حقوق کے مقامی گروپوں کا بھی کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں مرچوں کا پیسٹ رگڑ کر خواتین کو بانجھ بنانا عام بات ہو چکی ہے۔انسانی حقوق کے ایک گروپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ حراستی مراکز میں خواتین کے آپریشن کرکے ان کے رحم میں انٹراﺅٹرین ڈیوائسز (Intrauterine devices)نصب کی جا رہی ہیں۔عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ژن جیانگ کے حراستی مراکز میں لگ بھگ 10لاکھ سے زائد یغور مسلمان مردوخواتین قید ہیں اور ان پر بدترین جنسی و جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے اور انہیں اپنے اسلامی عقائد ترک کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف چین کا کہنا ہے کہ ژن جیانگ میں معمول کی عدالتی کارروائی ہو رہی ہے اور ان مراکز میں لوگوں کو ازسرنوتعلیم دی جارہی ہے۔