سید الشہدا امام حسین رضی اللہ عنہ اور کربلا کا جہاں بھی ذکر ہوتا ہے وہیں آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے ۔ محرم الحرام کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی لازوال اور بے مثال قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔
دیکھا جائے تو واقعہ کربلا تو 61 ہجری میں پیش آیا اور آج 1444 ہجری ہے لیکن کربلا آج بھی لوگوں کے دلوں میں بس رہی ہے ۔ آج بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر ہمارے اذہان کو منور کر رہا ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کا غم آج ہر کوئی منا رہا ہے ہر کوئی اپنے اپنے رنگ میں ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کا قصد ذاتی فائدے کے لئے نہیں کیا ۔ ان کا مقصد کسی قسم کی فتوحات بھی نہ تھیں ۔ بلکہ ان کا مطمع نظر ان بدعتوں کو ختم کرنا تھا جو یزیدی ٹولہ نہ صرف بنا رہا تھا بلکہ طاقت کے زور سے رائج بھی کرنا چاہتا تھا ۔
امام عالی مقام جن کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ، جس نے اس سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اے اللہ جو میرے حسین کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو حسین سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ۔ ‘‘ (مسند الامام الاحمد 172/4) امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا مقصد اسلامی شعائر اور دین محمدی ﷺ کو اس کی اصل شکل میں ازسر نو زندہ کرنا تھا کیونکہ ان کے گھر میں قرآن اترا ، اہل بیت سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب کوئی نہیں ۔ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے ’’ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ ‘‘(سورۃ الاحزاب 33) گویا اللہ تعالی نے بھی اپنی آیت مبارکہ سے اس حقیقت کو بیان کردیا کہ جو نجاست سے نفرت کرے گا وہی اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھے گا اور جس کو امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا ذکر گوارا نہ ہو گا وہی ناپاکی کی حدوں کو چھو لے گا۔ آج مساجد میں جو اذانیں باقی ہیں، نمازی زندہ ہیں ، اسلام زندہ اور تاقیامت تابندہ ہے وہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی قربانیوں کے ہی مرہون منت ہے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ تو وہ اعلی ہستی ہیں جو بچپن میں دوش نبی ﷺ پر دوران نماز سوار ہو جائیں تو ہمارے پاک نبی ﷺ سجدے کو طول دے دیں ۔ کبھی عید کے دن دوش نبوی ﷺ پر سوار ہوں اور لوگ کہیں کہ حسین آپ کی سواری تو بہت خوب ہے تو حضورﷺ ارشاد فرمائیں یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کروڑوں سر ہیں نمازیں جنہیں بچاتی ہیں
نماز کو جو بچائے وہ سر حسین کا ہے
امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کے لئے جو خدمات سرانجام دیں اپنا گھر کا گھر لٹا دیا ، چھ ماہ کا بچہ علی اصغر ، 18 سال کا کڑیل جوان علی اکبر، جوان بھائی عباس علمدار ، بھتیجوں، بھانجوں ، اصحاب ، رفقا سب کی قربانی دی ۔ لیکن بارگاہ خدا میں سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالی کا شکر بجا لائے۔
سید الشہدا کی شیر دل بہن خاتون بی بی زینب نے بلاخوف و خطر یزید کے دربار میں خطبات دے کر باطل کا پردہ چاک کر دیا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سر سجدے میں ہے گلے پر کند خنجر کی دھار ہے ، تین دن کی پیاس ہے اور امام اپنے اصحاب اور عزیزوں کے ہمراہ نماز ادا کر رہے ہیں ۔ کربلا کے بعد ایسی نماز آج تک ادا نہ ہوئی ۔
مشہور شاعر ناصر کاظمی نے مدحت شبیر رضی اللہ عنہ میں کہا
لہو لہو ہے زبان قلم بیاں کے لئے
یہ گل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لئے
ہمیں تو منزل آخر ہے آستان حسین علیہ السلام
یہ سر جھکے گا نہ اب اور آستاں کے لئے
سخن کی تاب کہاں اب ، کہ دل ہے خوں ناصر
زباں تیرچلی اک بے زباں کے لئے
امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سر تن سے جدا کر دیا گیا لیکن نیزے پر بھی جگر گوشہ بتول کے پاک لبوں سے تلاوت جاری رہی، امام حسین رضی اللہ عنہ نے دین اسلام بچایا تو اللہ تعالی نے قیامت تک کے لئے ان کے ذکر کو زندہ رکھ دیا ۔ آج ہر کوئی حسینی افواج کا حصہ بننا چاہتا ہے اور یزیدیت سے بیزاری کا اظہار چاہتا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین