بیجنگ(سچ نیوز) چین میں یغور مسلمان مردوخواتین کو حراستی کیمپوں میں رکھ کر ان پر ظلم ڈھائے جانے کی دلدوز خبریں تو آتی رہتی ہیں۔ اب ان مسلمانوں کے بچوں کے متعلق بھی انتہائی افسوسناک خبر آ گئی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق چین کے صوبے ژن جیانگ میں جہاں یغور مسلمان مردوخواتین پر بدترین جنسی و جسمانی تشدد کرکے انہیں مذہبی عقائد ترک کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے وہیں ان کے بچوں کو بھی والدین اور رشتہ داروں سے چھین کر جیل نما بورڈنگ سکولوں میں رکھا جا رہا ہے اور مرضی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
ایمی شن نامی صحافی نے اپنے آرٹیکل میں ایسی ہی ایک بچی کے بارے میں لکھا ہے کہ ”وہ پہلی کلاس کی بچی بہت اچھی طالبہ تھی اور اس کے کلاس فیلوز اسے بہت پسند کرتے تھے لیکن وہ ہمہ وقت غمگین رہتی تھی۔ تاہم اس کی افسردگی کی وجہ اس کے ٹیچرز جانتے تھے۔ وہ اپنی والدہ کو مِس کرتی تھی۔ اس کی والدہ ایک حراستی کیمپ میں قید تھی اور باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ حکام نے بچی کو اس کے رشتہ داروں کے حوالے کرنے کی بجائے ریاستی نگرانی میں قائم بورڈنگ سکول میں ڈال دیا۔ بچی اکثر میز پر سر رکھ کر سسکیاں لیتی اور روتی رہتی تھی۔“
ایمی شن لکھتی ہے کہ ”یہ ایسی واحد طالبہ نہیں ہے۔ ژن جیانگ میں 5لاکھ سے زائد ایسے بچے ہیں جنہیں والدین اور رشتہ داروں سے زبردستی چھین کر ایسے بورڈنگ سکولوں میں رکھا جا رہا ہے۔ تاکہ انہیں اپنی مرضی کی تعلیم دے سکیں اور اسلامی عقائد سے دور کر سکیں۔ژن جیانگ کی 800سے زائد ٹاﺅن شپس ہیں اور بیشتر ٹاﺅن شپ میں چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ایسے ایک سے دو بورڈنگ سکول قائم کر رکھے ہیں جہاں یغور مسلمانوں کے بچوں کو رکھا جاتا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آئندہ سال کے اختتام تک ہر ٹاﺅن شپ میں ایسے سکول قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ تیزی سے تعمیر کیے جا رہے ان سکولوں کا مقصد بچوں کو تعلیم دینا بتایا جاتا ہے لیکن ان کا اصل مقصد یغور مسلمانوں کے بچوں کو والدین اور رشتہ داروں کے اثر سے دور رکھ کر اپنی مرضی کی تعلیم دینا ہے تاکہ انہیں بچپن ہی سے اسلام سے دور کیا جا سکے۔“