تحریر: زھرہ افتخار
عنوان: چھوٹے
نہیں وہ ابھی گھر نہیں جاۓ گا ابھی کچھ دیر اور اسے اسی طرح سڑکوں پر آوارہ پھرنا ہے۔ ہاں ابھی اس کے پاس اتنی ہمت نہیں ہے کے وہ گھر جاۓ اور اپنی ماں کی پر امید اور سوالیاں نظروں کا سامنا کرے اور پھر دوبارہ انہیں مایوس کرے۔یہ تیسری دفعہ وہ انٹرویو میں ناکام ھوا تھا اور اب پھر کسی دوسری نوکری کا موقع آنے تک اسے شدید تنگ دستی اور پریشانی کا سامنا ھوگا۔ اسی سوچ میں اس نے موٹرساٸیکل ایک ھوٹل کے سامنے روک لی۔ کچھ دیر اور وہ تنہا رہنا چاھتا ہے، کچھ وقت اور ابھی اپنے ساتھ گزارنا چاھتا ہے۔
وہ ھوٹل میں گیا اور پلاسٹک کی میز کے ساتھ رکھی کرسی پہ جا بیٹھا۔ کچھ دور تندور پہ روٹیاں لگ رھی تھی اور لذیز کھانوں کی خوشبو ماحول میں شامل تھی۔ اسےدیکھتے ہی ایک دبلا پتلاسا دس بارہ سال کا بچہ تیز قدم بڑھاتے ھوۓ اس کی طرف آیا۔ بچے نے ایک ھاتھ سے ماتھے کا پسینا خشک کرتے ھوۓ کہا، سلام سر جی! بہادر خان ھوٹل پر خوش آمدید، حکم کیجۓ۔ اس نے

شہادت کی انگلی سے ایک کا اشارہ کرکے کہا ایک چاۓ۔ بچے نے ہاں میں سر ہلایا اور چلا گیا۔
وہ گہری سوچوں میں مگن تھا۔ سامنے درخت کے ساتھ لگی میز کے گرد پانچ کرسیوں پر پانچ کالج کے لڑکوں کا ایک گروپ شغل میں مصروف تھا۔ وہ لڑکے صبح ساڑھے بارہ بجے کے اس وقت کالج یونیفارم میں کھا پی رھے تھے، گپے لگا رہے تھے اور مستیوں میں مگن اپنے اندھیر مستقبل سے آنکھیں پھیرے بیٹھے تھے۔ اسے اپنے کالج کا زمانہ یاد آگیا۔آج سے کچھ عرصہ پہلے وہ بھی تو ایسے ہی کسی لڑکوں کے گروپ کاحصہ ھوا کرتا تھا۔ وہ بھی تو اپنی اور والدین اور اساتذہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے یاروں کے ساتھ کسی ایسے ہی ھوٹل پر محفل لگا تا تھا۔ والدین اور اساتزہ کی نصیحتیں اس کے کانوں میں کانٹوں کی مانند چبھتی تھی پھر کیا ھوا، وقت گزر گیا اور اب زمانے کی دھول اس کے چہرے کو آلودہ کررہی تھی۔ اسی گہری سوچ میں مگن تھا کے اس کے کانوں سے ایک معصوم آواز ٹکراٸ سر جی آپکی چاۓ۔ وہ ایک دم اپنی سوچوں میں سے چونکا اور اس کا ہاتھ چاۓ کی پیالی سے جو بچہ لیے کھڑا تھا ٹکرایا اور تیز گرم چاۓ چھلک کر اس کے ھاتھ پر آگری۔ تیزگرم چاۓ گرتے ہی اس کی جلد پر شدید مرچے اور چبھن محسوس ھوٸ۔ وہ زور سے چلایا ارے او چھوٹے اندھا ہے کیا؟ یاں گرمی سر چڑھ گٸ ہے۔ چاۓ دینے کی تمیز نہیں ہے۔ یے سن کر بچہ کے چہرے کے رنگ اڑ گۓ۔ اس نے دبی ھوٸ آواز میں کہا معاف کرنا صاحب لیکن میں تو سہی سے چاۓ لایا تھا آپ کو مخاطب بھی کیا لیکن آپ کا ہی ھاتھ نجانے کس سوچ سے چونک کر پیالی پر لگا اور چاۓ چھلک کر آپ کے ھاتھ پر گری۔ بچے کی بات سن کر نوجوان اور بھڑک گیا اور چلایا، بکواس بند کرو، اپنی غلطی چھپانے کے لۓ مجھے الزام دیتے ہو۔ چلو دفا ھو اور دوسری چاۓ لاٶ۔ نوجوان کی بات سن کر بچہ دوبارہ چاۓ لینے کے لۓ پلٹ گیا۔
اب چاۓ ایک بار پھر ٹیبل پر موجود تھی۔وہ وقفے وقفے سےچاۓ کے گھوٹ لیتا رہا۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر میں اس کی نظر سامنے والے میڈیکل اسٹور پر پڑی۔ وہاں وہی چھوٹاجسے کچھ ہی دیر پہلے اس نے بری طرح بے عزت کیا تھا ہاتھ میں ایک پرچی اور تھیلے میں کچھ دواٸیں لیے کھڑا تھا اور اب اس نے اپنی جیب سے پیسے نکال کر میڈیکل اسٹور والے کو دیے۔
اب اس کا ضمیر جاگا۔ اس نے سوچا کہ مجبوری اورضرورت کیسے انسان کی زندگی پہ اثر کرتی ہے۔ جن ہاتھوں کو اس عمر میں قلم اور کاغذ پکڑنا تھا وہ ہاتھ اس بہادر خان کے ھوٹل پر کبھی کوٸ ٹیبل یا کرسی صاف کرتے ہیں اور کبھی مجھ جیسے بد لہاز لوگوں کو چاۓ پیش کرتے ھیں۔ جس عمر میں اسے تصویروں میں رنگ بھرنے تھے، تتلی کو پکڑنا تھا، کھلونوں کو توڑنا تھا وہ زندگی کے قیمتی لمحے اس کے یونہی ٹیبل اور کرسی صاف کرتے، لوگوں کو کھانے اور چاۓ پیش کرتے اور میرے جیسے بہت سے بد اخلاق اور بد لہاز لوگوں کی تلخ باتیں سنتے دھوپ اور گرمی میں گزرجاتے ھے۔ کتنے ہی لوگ میرے جیسے اس بہادر خان ھوٹل پر اپنے اندر کی بھڑاس کو اس چھوٹے پر نکالتے ھونگے۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کو اس چھو ٹے کو جھڑکتے ھونگے۔
آج وہ اس کمزور چھوٹے کا احساس کر سکا تھا کیونکہ آج وہ بھی تو کمزور تھا، بے روزگار تھا اور خالی ہاتھ تھا۔ چھوٹا مجبور تھا۔ اپنے گھر کی لاج رکھنے والا ، محنت سے حلال کما کر اپنے گھر میں روٹی لانے والا اور شاید اپنے والدین میں سے کسی کی دواٸ اپنی کماٸ سے لینے والا، لوگوں کے تلخ لہجے سر جھکا کر برداشت کرنے والا ایک بہادر چھوٹا تھا۔ اور غریبی اُس کی چنی ھوٸ نہیں تھی۔ اس سے انکار نہیں کے یے چھوٹے اپنے گھر کے بڑے ھوتے ھیں۔ بہادر اور عزتدار ھوتے ھیں۔ ان کو بے عزت کرنا اور ان پر جملے کسنا کسی طور جاٸز نہیں۔
وہ اپنے رویہ پر شدید نادم تھا۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں کو ٹکراٸ۔ صاحب ایک چاۓ اور لاٶ کیا؟ چھوٹا اس کے سامنے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ لیے کھڑا تھا۔ اسنے چونک کر دیکھا اور کہا ن۔ن۔ نہی۔ پھر اس نے اپنا سیدھا ہاتھ چھوٹے کے سیدھے کندھے پر رکھ کر کہا ”چھوٹے تم بہادر ھو بس کبھی کمزور مت پڑنا“ اور اپنی جیب سے اس نے ایک نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ کر کہا یہ تمھاری بہادری کا چھوٹا سا انعام ہے اور وہاں سے چلا گیا۔ چھوٹاحیرانی سے اسے جاتا ھوا دیکھتا رہا۔