پاکستان میں صحافت خطرناک پیشہ کیوں؟
رپورٹ (بشریٰ جبیں جرنلسٹ ایم ایس سی ماس کام) نے کہا ہے کہ
شعبہ صحافت سے وابستہ لوگ پوری دنیا میں مختلف قسم کے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں سنہ 1992 سے اب تک 1000 سے زائد صحافی قتل ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جن پر حملے ہوئے، ڈرائے دھمکائے گئے، جیل ہوئی یا اور طریقوں سے ظلم و ستم کا شکار ہوئے۔
پاکستان میں میڈیا سیفٹی پر پچھلے دس پندرہ سال میں بہت کام ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی صحافی ایسا رہ گیا ہو جسے مختلف این جی اوز، صحافتی تنظیموں اور پریس کلبوں کی جانب سے آگاہی نہ دی گئی ہو کہ انہوں نے تنازعات کو کیسے رپورٹ کرنا ہے مگر اس کے باوجود گذشتہ سال پاکستان میں سات صحافی قتل ہوئے۔
انٹرنشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں دنیا بھر میں جو صحافی قتل ہوئے ان میں پاکستان، عراق، میکسیکو اور فلپائن کے بعد چوتھے نمبر پر ہے جہاں اس عرصے میں 138 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی جانچ کرتا ہے، اس کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سا ل کے دوران 148 ایسے واقعات ہوئے ہیں۔
اب صحافیوں کے لیے خطرناک ترین جگہ بلوچستان یا قبائلی علاقے نہیں بلکہ پاکستان ان کے لیے خطرناک ترین شہر بن چکاہے۔ کیونکہ صحافیوں کے خلاف 148 واقعات میں سے 51 اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس دوران سات صحافی قتل ہوئے سات پر قاتلانہ حملے ہوئے، پانچ کو اغوا کیا گیا اور 25 گرفتار ہوئے، 15 کو زدو کوب کیا گیا جبکہ 27 پر مقدمات درج کئے گئے۔
دو روز پہلے صحافی اسد طور کو ان کے فلیٹ میں زد وکوب کیا گیا۔ پانچ ہفتے پہلے سینیئر صحافی ابصار عالم کو اسلام آباد میں ان کے گھر کے سامنے گولی ماری گئی۔ پچھلے سال جولائی میں مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا۔
یہ سارے واقعات اسلام آباداور پاکستان میں ہوئے۔ کیمروں میں ریکارڈنگ کے باوجود ملزمان ابھی تک قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ ان تینوں حالیہ واقعات کے پیچھے کون ہے اس حوالے سے سینئر صحافی بشری جبیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان میں کام کرنے والا ہر وہ صحافی جو ابھی تک بچا ہوا ہے اسے معلوم ہے کہ کون سی فالٹ لائن ہیں جو کراس نہیں کرنی، لیکن چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی قلم اور آواز کی حرمت پر لبیک کہتے ہیں بس ایسے صحافی ہی طاقتور اداروں اور مافیا کا نشانہ بنتے ہیں۔‘
صحافی بشریٰ جبیں نے مزید کہا کہ ’صرف بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی شورش میں اب تک 40 سے زائد صحافی اپنی جانوں سے جا چکے ہیں۔ 24 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ صحافی اور کیمرہ مین اپنے فرائض کے ادائیگی کے دوران بم دھماکوں یا کراس فائرنگ کا نشانہ بنے۔
پاکستان میں گذشتہ 30 سالوں میں جو صحافی ہلاک ہوئے ان کی وجوہات میں طالبانائزیشن، فرقہ واریت، بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی، جبکہ سندھ میں جاگیردارانہ سماج، ہزارہ کے پی میں ڈرگ مافیا کا کردار بھی شامل ہے۔
لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی صحافیوں کے قتل کے حوالے سے تفتیش کو آگے نہیں بڑھا پاتے کیونکہ ان کے پیچھے جو ہاتھ ہوتے ہیں وہ اتنے واضح ہوتے ہیں کہ قانون کو اپنی گرفت کمزور ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ایک سال پہلے نوشہرو فیروز میں ایک صحافی عزیز میمن کو قتل کر کے ان کی لاش کو نہر میں بہا دیا گیا۔ پولیس نے پہلے تو اسے خود کشی قرار دے دیا لیکن صحافتی تنظیموں کی دباؤ پر جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو ڈی این اے کی مدد سے پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اگرچہ اس قتل کی وجہ ذاتی عناد سامنے آئی تاہم عزیز میمن کو چند روز پہلے ایک سٹوری کرنے پر دھمکی ملی تھیں جوبلاول بھٹو کے ایک جلسے میں پیسے دے کر خواتین کی شرکت سے متعلق تھی۔
ایک بیان میں صحافی بشریٰ جبیں نے کہا کہ ہم آزادی صحافت پہ یقین رکھتے ہیں صحافت اور صحافيوں کا گلہ گھونٹے کی اجازت نہ پہلے کبھی دی اور نہ آئندہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے برداشت کرینگے۔۔۔۔
صحافیوں کا کام حق اور سچ بولنا اور لکھنا ہوتا ہے حکومت کا کام صحافيوں کو پروٹکشن فراہم کرنا ہے جس نے حکومت لاتعلق ہے۔۔۔۔۔
*بند کمروں کی صحافت میرا منشور نہیں*
*جو بات کہونگی سر بازار کہونگی*
*تم رات کی سیاہی میں مجھے قتل کروگے*
*میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملونگی*