نئی دہلی(مانیٹرنگ ڈیسک) آج دنیا کے ہر چھوٹے بڑے جزیرے کا بیرونی دنیا سے رابطہ ہو چکا ہے، حتیٰ کہ ایمازون کے جنگلات میں صدیوں سے تنہا رہنے والے قبیلے بھی باہر کے لوگوں سے گھل مل چکے ہیں لیکن بھارت کی سمندری حدود میں ایک ایسا واحد جزیرہ ہے جس کا اب بھی بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں۔ اس جزیرے کا نام ’نارتھ سینٹینل‘ ہے۔ میل آن لائن کے مطابق 75ہزار سال سے زائد عرصہ قبل جب انسان افریقہ سے نکل کر باقی دنیا میں منتقل ہوا تو یہ لوگ مشرق وسطیٰ سے ہوتے ہوئے برما اور پھر انڈیا پہنچے اور ان میں سے کچھ اس جزیرے پر آباد ہوئے۔ تب سے جزیرے پر بسنے والے یہ لوگ تنہاءزندگی گزار رہے ہیں اور جو کوئی ان کے جزیرے پر جانے کی کوشش کرتا ہے اسے ہلاک کر دیتے ہیں۔اب تک اس جزیرے پر پہنچنے اور اس قبیلے سے رابطہ کرنے کی سینکڑوں کوششیں ہو چکی ہیں لیکن یہ لوگ زہر میں بجھے ہوئے تیروں، پتھروں، نیزوں اور بھالوں سے باہر سے آنے والی ہر ٹیم کو مار بھگاتے ہیں۔گزشتہ ہفتے ایک 26سالہ عیسائی مبلغ جان ایلن چاﺅ نے اس جزیرے پر جا کر قبیلے کے افراد کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی اور اسے بھی اس تنہائی پسند خونخوار قبیلے نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ رپورٹ کے مطابق جان ایلن کو بھی انہوں نے زہر میں بجھے ہوئے تیر مارکر گرایا اور پھر اس کے گلے میں رسی ڈال کر اسے ساحل کی ریت پر گھیٹتے رہے، حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہو گئی۔جان ایلن ایوینجلیکل اورل رابرٹس یونیورسٹی، اوکلاہوما سے فارغ التحصیل تھا۔ اس نے کچھ عرصہ قبل نارتھ سینٹینل جانے کا اعلان کیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ”سینٹینل پر بسنے والے قبیلے کو مسیحی بنانا میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہے۔“ تاہم اس کا اس جزیرے پر جانا حسبِ توقع جان لیوا ثابت ہوا۔رپورٹ کے مطابق اس جزیرے کا رقبہ صرف 20مربع میل ہے اور اندازے کے مطابق اس کی آبادی 300سے 400نفوس پر مشتمل ہے تاہم اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آج تک بیرونی دنیا کا کوئی شخص یا ٹیم اس جزیرے پر جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے قریب انڈیمان اور نیکوبار نامی جزائر بھی موجود ہیں جو کالے پانی کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ برطانوی سامراج کے دوران قابض برطانوی حکومت لوگوں کو کالے پانی کی سزا دے کر انڈیمان اور نیکوبار پر بھیج دیتی تھی۔ تاریخ میں سینٹینل جزیرہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک سروے ٹیم نے 1771ءمیں دریافت کیا تھا۔ اس ٹیم نے اپنی ایک رپورٹ میں اس جزیرے کا ذکر کیا۔ وہ اس کے پاس سے گزرے اور رکے بغیر آگے نکل گئے۔ انہوں نے اسے افسانوی جزیرہ قرار دیا تھا۔ 1867ءمیں انڈیمان پر قید کچھ لوگ فرار ہوگئے۔ انڈیمان کا انگریز افسر مقامی لوگوں کی مدد سے ان کی تلاش میں نارتھ سینٹینل جزیرے کی طرف جا نکلا۔ ابھی وہ ساحل سے کچھ دور تھے لمبے والوں ننگ دھڑنگ قبائلیوں نے تیر و نیزے سے ان کی کشتی پر حملہ کردیا۔ یہ قریب جائے بغیر واپس آگ
اسی سال انڈین نیوی کا ایک جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوا جس میں سو سے زیادہ لوگ سوار تھے۔ وہ تین دن تک ساحل پر رہے۔ اس دوران مقامی قبیلہ کی طرف سے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ شاید تعداد زیادہ ہونے پر وہ قبیلہ جزیرے کے اندر گھنے جنگلوں میں چھپ گیا ہو۔ تیسرے دن کچھ قبائلی جن کے سیاہ چہرے ناک پر سرخ رنگوں سے ڈیزائن تھے حملہ آور ہوئے ان کے نیزوں کے آگے لوہے کی انی لگی ہوئی تھی۔ نیوی کپتان کے مطابق وہ کچھ باتیں کررہے تھے یا نعرے لگارہے تھے ان کے الفاظ “pa on ought”جیسے تھے۔ مزید کسی تصادم سے پہلے یہ واپس لوٹ آئے۔5جنوری 1880ءمیں ایک برطانوی فوجی مہم سینٹینل جزیرے پر گئی۔ لوگ انہیں دیکھ کر جنگلوں میں چھپ گئے۔ اس مہم کو ایک جگہ ایک خاندان ملا جس میں دو بوڑھے ماں باپ اور چار چھوٹے بچے تھے۔ انہیں انڈیمان لے جایا گیا جہاں وہ بہت جلد بیمار ہوگئے۔ بوڑھی عورت و مرد اسی بیماری میں کچھ عرصہ بعد مرگئے۔ فوجی ٹیم چاروں بچوں کو بہت ساری خوراک اور تحائف دے کر واپس ان کے جزیرے پر چھوڑ آئی۔اس کے بعد 1896ءمیں انڈیمان سے تین قیدی بھاگ کر نارتھ سینٹینل چلے گئے ان کی تلاش میں جانے والی پارٹی کو دو کا کچھ پتہ نہیں چلا جبکہ تیسرے کی لاش ساحل پر پڑی ملی جس کی ناک کٹی ہوئی تھی اور جسم نیزوں سے چھلنی تھا۔ 1967ءمیں ایک بھارتی پنڈٹ جزیرہ پر گیا انہیں دیکھ کر قبیلہ جنگلوں میں چلا گیا جس پر پنڈٹ کی ٹیم نے لائے ہوئے سارے تحفے ان کے ہٹ کے سامنے رکھ دئیے اور واپس آتے ہوئے ان کی کچھ یادگار چیزیں بھی لیتے آئے جس میں تیر کمان، ٹوکری اور ایک جنگلی سور کا ڈھانچہ تھا۔1970ءمیں ایک اور پارٹی جزیرے پر گئی پہلے انہوں نے دور سے ہی کافی ساری مچھلیاں جزیرے پر پھینکی جس کا مطلب تھا کہ ہم دوستی چاہتے ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود کچھ اچھا جواب نا آیا تو یہ ٹیم بھی واپس آگئی۔ نیشنل جیوگرافک کی ایک ٹیم 1974ءمیں اس جزیرے پر آئی۔ وہ ایک ڈاکومینٹری فلم بنارہے تھے جس کا نام “Man in search of man” تھا۔ ان کے ساتھ بہت سارے فوٹوگرافر اور مسلح سپاہی تھا۔ ساحل پر پہنچ کر انہوں نے کچھ تحفے ساحل پر چھوڑے جن میں ناریل پکانے کے برتن بچوں کی کھلونا کار گڑیا اور ایک زندہ سور تھا۔ قبائلیوں نے سب چیزیں اٹھا لیں اور تیروں سے حملہ کردیا ایک تیر فلم ڈائریکٹر کی ران میں لگا اور وہ شدید زخمی ہوگیا۔ ٹیم اپنی مہم ختم کرکے واپس آگئی۔1974ءمیں ایک اور کوشش کی گئی جب انڈین نیوی نے ساتھ کے جزیرے سے چند Onge لوگ ساتھ لیے کہ شاید ان کی وجہ سے کچھ اچھا جواب مل جائے مگر Onge لوگوں کی زبان بھی کچھ کام نہ آئی۔ 1981ءمیں جزیرہ کے قریب ایک کارگو جہاز خراب ہوگیا اور جہاز کا عملہ چھوٹی کشتیوں پر نارتھ سینٹینل جزیرہ پر چلا گیا۔ یہ ساحل کے قریب کشتیوں میں رہے۔ بعد میں انڈین آرمی کے ہیلی کاپٹر پر سب کو واپس لایا گیا تھا۔ جنوری 1991ءمیں ایک ٹیم جزیرہ پر پہنچی اور حیران کن طور پر قبائلی ان کے قریب آگئے۔ اس ٹیم نے کافی تصویریں بنائیں۔ اب تک نارتھ سینٹینل جزیرے کی جتنی بھی تصویریں ہیں وہ اسی مہم کی کاوش ہے۔ایک اور کامیاب سروے مہم 1991ءمیں اس جزیرے پر اتری۔ لیکن اس سروے ٹیم سے بھی زیادہ معلومات نہ مل سکیں۔ 2004ءسونامی سے سینٹینل کو بھی کافی نقصان پہنچا تھا۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے سونامی کے تین دن بعد بھارتی آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر اس جزیرے پر آیا مگر مقامی لوگوں نے دور سے ہی تیر اور نیزے کے ساتھ حملہ کردیا جس سے ہیلی کاپٹر اترے بغیر واپس آگیا۔جنوری 2006ءمیں دو مچھیرے جو کہ قریب ہی مچھیلیاں پکڑ رہے تھے کہ ان کی کشتی خراب ہوگئی اور مقامی لوگوں نے انہیں پکڑ کر مار دیا۔ نارتھ سینٹینل جزیرہ جغرافیائی یا قانونی طور پر بھارت کے زیر کنٹرول نہیں ہے۔ لیکن بعض دفعہ اسے بھارت کے زیر کنٹرول خودمختار علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود جب مقامی قبیلہ نے کسی قسم کا تعلق رکھنے سے انکار کردیا تو بھارت نے 1991ءسے سینٹینل جزیرے پر جانا یا اس کے قریب تک جانے پر بھی پابندی عائد کردی جو اب تک برقرار ہے۔ انڈیمان انتظامیہ کے مطابق سینٹینل جزیرے کے اردگرد تین میل تک کی حدود ممنوعہ علاقہ ہے اور وہاں جانا غیرقانونی ہے۔