پیرس(سچ نیوز) پاکستان میں خواتین کے مسجد جا کر نماز پڑھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے، ان کے امام ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر آپ کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو گی کہ دنیا میں خواتین کے امامت کروانے کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اس معاملے کی شرعی حیثیت تو علماءکرام ہی بتا سکتے ہیں کہ آیا خاتون امامت کرا سکتی ہے یا نہیں تاہم ہم آپ کو دنیا کی کچھ ایسی خواتین کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں جو امامت کراتی ہیں اور خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی ان کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ ویب سائٹ ’پڑھ لو‘ کے مطابق ان میں پہلا نام کاہینہ بہلول کا ہے جو فرانس کی پہلی خاتون امام ہیں۔ انہوں نے اسلامک سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو بھی اسلام کی نمائندگی کرنی چاہیے۔ آج کے دور میں اسلام کے ساتھ جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش آ رہا ہے وہ کاہینہ بہلول کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا اسلام کو مسلمان مردوں کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ چنانچہ دنیا اسلامی معاشروں کو مردوں کے معاشرے قرار دیتی اور سمجھتی ہے کہ وہاں خواتین کو کوئی حقوق حاصل نہیںہیں۔خواتین ائمہ میں دوسرا نام ڈاکٹر امینہ ودود کا ہے۔ وہ امریکی شہری ہیں اور مذہب و فلسفے کی پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر امینہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ قرآن مجید صنفی مساوات اور انصاف کا پرچار کرتا ہے۔ ان کے بعد شیریں خانکن کا نام آتا ہے جو ڈنمارک کی پہلی خاتون امام ہیں۔ انہوں نے کوپن ہیگن میں اس پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جہاں خاتون کی امامت میں مردوخواتین نماز پڑھتے ہیں۔ اس مسجد کا نام انہوں نے مریم مسجد رکھا تھا۔ شیریں کا نام ان چند خواتین کی فہرست میں بھی شامل ہے جنہوں نے اذان بھی دی۔ اب کوپن ہیگن میں مقیم پاکستانی، ایرانی، یورپی، ترکش اور عرب مسلمان مریم مسجد میں ان کی امامت میں نماز پڑھتے ہیں۔چین میں بھی ایک خاتون لگ بھگ ایک عشرے سے امامت کروا رہی ہیں، جن کا نام ’لی جنگ پنگ‘ ہے۔ لی جنگ پنگ کہتی ہیں کہ مسلمان مردوں کی ہر مسجد کے ساتھ مسلمان خواتین کی ایک مسجد بھی ہونی چاہیے کیونکہ خواتین معاشرے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کی پرورش سے سماج کی ترقی تک خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح ہمارے ہمسائے بھارت میں بھی ایک 34سالہ جامدہ نامی خاتون امامت کروا رہی ہے۔ ان کا تعلق بھارتی ریاست کیرالا کے شمالی ضلع کولم سے ہے جس کی 70فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں امامت کروانے پر قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ”میں ان دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر امامت نہیں چھوڑوں گی۔ اسلام کو ایک ایسا مذہب بنا دیا گیا ہے جس میں خواتین کو دبایا جاتا ہے۔ میں امامت کرکے اسلام کے متعلق قائم اس غلط تاثر کو توڑنا چاہتی ہوں۔“