لاہور (سچ نیوز) معروف فلم مولاجٹ میں نوری نت کا کردار ادا کرنے والے لیجنڈری اداکار مصطفیٰ قریشی کا کہنا ہے کہ ان کی مولا جٹ غریبوں کی فلم تھی لیکن دی لیجنڈ آف مولا جٹ کافی مہنگی فلم ہے۔ ہماری فلم ساڑھے 4 سال تک چلی اور کروڑوں روپے کا ٹیکس حکومتی خزانے میں دیا، خواہش ہے کہ نئی فلم اس سے بھی زیادہ پیسہ خزانے میں دے۔ بلال لاشاری اچھے فلم میکر ہیں ، ان سے یہی کہوں گا کہ انہیں اس فلم کی اردو اور انگریزی زبان میں ڈبنگ کرکے پوری دنیا میں ریلیز کرنی چاہیے۔لالی ووڈ فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ کا پہلا ٹیزر ٹریلر کچھ روز پہلے جاری کیا گیا ہے جس کی پورے ملک میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ اس فلم میں مولا جٹ کا کردار فواد خان نبھارہے ہیں جبکہ حمزہ علی عباسی نوری نت بنے ہیں۔ 1979 کی اصلی والی مولا جٹ فلم میں نوری نت کا کردار ادا کرنے والے اداکار مصطفیٰ قریشی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس فلم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔مصطفیٰ قریشی کا کہنا ہے کہ ٹریلر دیکھ کر لگتا ہے کہ فلم پنجابی زبان میں بنائی گئی ہے لیکن اس میں ماحول پنجابی والا نہیں لگتا۔ ہماری مولا جٹ غریبوں کی فلم تھی لیکن لوگوں نے اسے امیرانہ کردیا ہے، سنا ہے کہ بہت بڑے بجٹ سے یہ فلم بنائی گئی ہے۔ بلال لاشاری نے بہت بڑی فلم بنائی ہے۔ وہ کافی سمجھدار ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں اور ظاہر ہے انہوں نے سوچ سمجھ کر فلم بنائی ہے، بلاشبہ انہوں نے بڑی اچھی فلم بنائی ہو گی۔انہوں نے کہا ’ہماری مولا جٹ تو خیر ساڑھے چار سال چلی تھی، اللہ کرے، میری دعا ہے کہ یہ فلم ساڑھے چار سال کیا دس سال چلے۔اس دور میں ہماری مولا جٹ نے کروڑوں روپے کی آمدنی حکومتی خزانے میں دی اور مجھے امید ہے کہ یہ مولا جٹ بھی اس سے کئی سو گنا زیادہ آمدنی پر ٹیکس حکومتی خزانے میں دے گی۔ان کے لیے میری دعائیں ہیں اور بس میری خواہش ہے کہ فلم کامیاب ہو، یہ مقبول تو ہوگی، کیونکہ اس کا نام مولا جٹ ہے‘۔مصطفیٰ قریشی نے دی لیجنڈ آف مولا جٹ پر تحفظات کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ یہ بحیثیت ایک فلم بہت اچھی ہو گی۔لیکن پھر اسے مولا جٹ نام نہ دیں یا اس کا کوئی اور نام رکھ دیتے۔ہو سکتا ہے میں غلط ہوں، مگر جو لوگ فلم دیکھنے جائیں گے، اگر وہ ہماری والی مولا جٹ کو ذہن میں رکھ کر دیکھنے جائیں گے تو انہیں مایوسی ہو گی۔مصطفیٰ قریشی نے نوری نت کا کردار ادا کرنے والے حمزہ علی عباسی کو ایک اچھا اداکار قرار دیا ۔ انہوں نے فلم میکر بلال لاشاری کو تجویز دی کہ ’ اس فلم کی انگریزی میں اور اردو میں ڈبنگ کریںاور اسے دنیا میں ریلیز کریں، تو انشااللہ کامیابی ہوگی‘۔