عنوان: موت بےرحم
تحریر: ڈاکٹر زاہرہ افتخار
یے کارڈیو کے وارڈ کا پہلا دن تھا۔ اس سمیت اس کے سارے کلینیکل گروپ کے ساتھیوں کے قدم کارڈیو وارڈ کی جانب تھے۔ ہنستے ہنساتے دھیمے دھیمے قدم اٹھاتے وہ سب وارڈ میں داخل ہوۓ جہاں دونوں جانب تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیڈ لگے تھے جن پر مریض آرام فرما رہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد اب وہ مریض کی ہسڑی (صحت سے متعلق سوالات) کے لیے دو دو کی جوڑیوں میں تقسیم ہو چکے تھے۔ وہ اور اس کی دوست بھی داٸیں جانب کے ایک بیڈ ک طرف بڑھے۔ جہاں ایک تقریباً اسی نوے سال کا نحیف بوڑھا تھا اس کے سفید بال اور چہرے پربے شمار جہریاں تھی۔ کمزوری سے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ پاس ہی ایک گوری رنگت کی لڑکی جامنی لباس میں بیٹھی تھی جو شاید اُس کی بیٹی تھی۔ لڑکی کافی فکرمند تھی فکر سے اُس کے چہرے کا رنگ زدر پڑ رہا تھا وہ سر ڈھانپے ہوۓ بیٹھی صورة یٰس پڑھ رہی تھی۔
وہ اپنی ہم جولی کے ساتھ اب اس مریض کے بیڈ کے داٸیں جانب کھڑی تھی۔ پہلے اُسنے اور پھر اسکی دوست نے مریض کو سلام کہ بعد اپنا تعارف کرایا۔ پھر مریض سے اجازت چاہی کہ اس کی صحت سےمتعلق سوالات کرسکتی ہیں۔ نحیف بوڑھے نے ایک پھیکی مسکراہٹ سے ان دونوں کو دیکھا پھر لب ہلاۓ۔ یے کچھ پل ہیں زندگانی کہ یے میری بیٹی ہے اس سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی بیٹی جو اب یٰس مکمل کرچکی تھی ایک دم سے کرسی سے اٹھی چہرے پہ گھبراہٹ اور ماتھے پہ شکنیں تھی جلدی سے اپنے ابا کہ پاس آکھڑی ہوٸ اور ان کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر بولی ایسے نا بولے ابا اللہ آپکو لمبی عمر دے۔ مریض کی آنکھوں سے اب آنسو جاری تھے اسنے آنکھیں بند کرلی اور اس کے لب لرزتے ہوۓ دھیمی آواز میں کلمہ پڑھ رہےتھے۔ اس لمحے وارڈ میں اس بیڈ کے ساتھ لگی ای سی جی مشین کی آواز گونج گونج کر ٹوٹتی دھڑکنوکا پیغام دے رہی تھی۔ فوراً ہی وہاں ریزیڈینٹس اور سینیٸر ڈاکٹر موجود ہوۓ۔
اس کی بیٹی ساکت کھڑی تھی اور اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوگررہے تھے چند لمحوں بعد ہی وہ اپنے باپ کو کھو چکی تھی۔
آج زندگی میں پہلی دفعہ اُس نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ اپنی آنکھوں کہ سامنے ایک بیٹی کو اپنا باپ کھوتے دیکھا تھا۔ آج اسے احساس ہوا کہ جس ہسپتال میں وہ روز آکر اپنے خواب کی تعبیر جیتی ہے وہاں روز ناجانے کتنے لوگ زندگی ہار جاتے ہیں۔ موت جیت جاتی ہے زندگی ہار جاتی ہے۔ سچ ہےبیماری اور موت بہت بے رحم ہیں۔ عمر کا کہاں لحاظ کرتی ہیں یے۔ پھرچاہے وہ کچھ مہینوں کا شیر خوار بچہ ہویا پھر بوڑھا،کہاں کسی کو دیکھتی ہے۔ کہاں دیکھتی ہے کہ کسی کو کوٸ شخص کتنا پیارا ہے۔ کہاں دیکھتی ہے کہ جسکی جان درکار ہے وہ اپنے پیچھے کتنے پیار کرنے والےچھوڑ کر جارہا ہے کب رحم آتاہے موت کو کسی سے اُس کے پیارے کو ہمیشہ کے لیےلیتے ہوۓ کہ جس شخص کی زندگی کا کُل حاصل بس وہی شخص تھا اور اب اُس کے بغیر اُس کی پوری دنیا سُونی رہ جاۓ گی۔ ایک ایسا خالی پن جو کبھی نا بھر سکے گا۔ ایک ایسا زخم کہ جو درد کریگا تو شدتِ درد سے پوری روح کانپے گی۔
بےرحم موت کب رحم کرتی ہےکسی ماں کہ لال کوگلے لگانے سے پہلے۔ کب بے رحم موت کو ترس آتا ہے اس معصوم پر جس کو ماں نے دعاٶں سے مانگا اور تکلیف اٹھا کر پیدا کیا۔ کبھی یے موت کسی ماں کو اُس کے لال سے جدا کرتی ہےتو کبھی کسی لال سے اُس کے ماں باپ کو چھین لیتی ہے۔ پھر وہ لال زندگی بھر کے لیے اس نرم گود سے محروم ہوجاتا ہے کہ جس گود میں سر رکھ کر وہ اپنے سارےدن کی تھکن بھول جاتا تھا، ماں کہ بوڑھے جہریوں والے ہاتھ جو زمانے کی اُلجھنے جھیل کر سخت ہوچکے تھے لیکن اس کے بالوں میں کس قدر نرم ملاٸم ہوتے تھے کہ اس کو زہنی سکون بخشتے تھے۔ وہ جھریوں بھرا چہرہ جب اس کے آنے پہ کھل اٹھتا تھا۔ اس لال نے ایک ماں کو نہیں کھویا بلکہ بہت سارے جزبوں کو بھی اس ماں کہ ساتھ ہی دفن کردیا۔ موت جب کسی کا کوٸ پیارا چھینتی ہے تو صرف انسان اپنے پیارے کے جسم کو دفن نہیں کرتا بلکہ بہت سارے بیتے لمحے، یادیں اسکی باتیں اور اس سے جڑی ہر بات کو دل کے کسی کونے میں دفن کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ محبت اب کہاں سے میسر ہوگی اسے۔ وہ باپ کی دی گٸ چھاٶں کہاں سے آۓ گی جو زمانے کی دھوپ سے بچاتی تھی۔ کون اس کے ٹوٹے ہوۓ وجود کو جوڑے گا اور اس کو دوبارا اٹھنے کی قوت دے گا۔ وہ لاڈلا اب کہاں سے لاۓ وہ آنکھیں جو اس کو فخر سے دیکھتی تھیں۔ وہ اس کے باپ کی فخریہ آنکھیں تو اب ہمیشہ کے لیے سو گٸیں۔
سچ ہے کہ زندگی اور موت دونوں ہی بے رحم ہیں۔ موت زندگی چھین لیتی ہے اور زندگی موت کی جانب بڑھتی ہے جیسے جیسے پل پل گزرتی ہے۔
وہ کیا خوب کسی شاعر نے اپنے شعر میں جملا قید کیا ہےکہ،
زمیں کہا گٸ آسمان کیسے کیسے!