عنوان "ڈیم بننے نہیں دینگے
تحریر-ضرب شمشیر علی/مولانا محمد دین چلاسی
ملک پاکستان میں فضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سےخطہ بے آٸین سرزمین گلگت بلتستان میں موجود ہمالیہ کے گلیشرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ملک دشمن انڈیا کی طرف سے دریائے نیلم پرکشن گنگا ڈیم کی تعمیر آبی جارحیت کا واضح ثبوت ہے۔ بھارت نے دریاٶں کا پانی روک کر پاکستان کو بنجر بنانے کی کو شش کی ہے۔ پاکستان کی صرف 18فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اس ضمن میں یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ بجلی کی قلت سے دو چار ہمارا ملک مزید مشکلات سے دوچار ہوگا۔ پاکستان پرآبی جنگ مسلط کرنے کا بھارت باقاعدہ آغاز کرچکا ہے۔ ڈیم بنانے کے حوالے سے بھارت کا خیال یہ ہے کہ اگر تین دریاٶں کا پانی پاکستان کو مل جائے تو یہ بحر ہند میں پہنچ کر ضائع ہو جائے گا۔بھارت نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ہم پاکستان کو بوند بوند کیلئے ترساکر ماریں گے۔ بھارت کو ویسے پرامن اور مستحکم پاکستان قبو ل نہیں اسی لٸیے جارحیت کے مختلف منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔ بھارت کے خیال میں پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں اس خوش فہمی کا شکار ہوکر بھارت نے دریائے سندھ کے پانی پر قبضہ کر کے طبل جنگ بجا دیا ہے۔ہمارے محکمہ زراعت کے مطابق عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی گرمی کی شرح نے گلیشیر کی صورت میں پانی کے ذخائر کو پگھلانا شروع کر دیا ہے جس کے سبب مستقبل میں شدید طوفانوں و طغیانیوں کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔ آبادیوں کی بقا کے لئے بہت زیادہ مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اس ضمن میں موثر اقدامات بروئے کار لانے چاہییں۔ نئے آبی ذخائر و ڈیم وقت کی اشدضرورت ہے۔ پانی کی کمی کے نتیجے میں گونا ں گوں مسائل درپیش ہیں۔ کسانوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا رہتا ہے۔ ڈیموں کی کمی اور بارشوں کے باعث گزشتہ تین سالوں سے پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے کسان طبقہ مشکلات کا شکار ہے.افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان ڈیموں کی تعمیر کے شعبے میں بہت زیادہ پیچھے ہے۔ ہماری زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم حکمرانوں کی عدم توجہی و بے حسی کے کیا کہنے! مسائل ابتک جوں کے توں ہیں۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پینے کے صاف پانی سے لے کر زراعت کے لئے درکار دریاوں کے پانی کی کمی ملک کی ترقی کی راہ میں اہم مشکلات ہیں اس سلسلے میں ہم آج بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں ان کے مدمقابل آنے کے لئے موثر اقدامات اور سخت محنت کی اشد ضرورت ہے۔جب ملکی سطح پر ڈیمز کے تعمیر کرنے کی پالیسی کو حتمی شکل دیدی گٸی اور دیامر بھاشہ ڈیم کے تعمیر کے لٸیے ایسے ایسے ضلعے کا انتخاب کیا گیا جو علاقاٸی رسم و رواج۔۔قباٸلی لحاظ سے ۔معاشی ۔دفاعی۔جغرافیاٸی ۔سیاحتی ۔معدنی۔اور مذہبی اعتبار سے انتہاٸی اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کا داخلی دروازہ ۔اور سی پیک کی گزرگاہ بھی تھا اس ضلعے کے باسیوں کو
۔جب ان تمام مساٸل کا دیامر کے چیدہ چیدہ قباٸلی بااثر اہم شخصیات علمإ عماٸدین اور صحافتی برادری کو ادراک ہوا تو انہوں نے چند سالوں میں مختلف قباٸلز پشتینی باشندگان و مالکان تھک قباٸل ۔بٹوخیل قباٸل اور کوہستان کے اطراف و اکناف سے ہجرت کرکے چلاس میں مقیم غیرمالک سونیوال قباٸل کے بوڑھے بزرگ اور یوتھ کو شعور آگاہی مہم دینے کے ساتھ ساتھ ملکی اندرونی اور بیرونی لاحق خطرات سے مکمل واقف کراتے ہوۓ انکی ڈیم کے تعمیر پر زہن سازی کراکر آمادہ کرانے میں کامیاب ہوۓ پھر مالکان و غیرمالکان سب ملکر اندرونی بیرونی ڈیم کو لاحق خطرات کو دور کرنے میں بہترین کردار ادا کیا اور ڈیم کے تعمیر کے لٸیے راہ ہموار کردیا اور ڈیم کی تعمیر نے اپنی رفتار پکڑتے ہوۓ 27 ارب 18 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کا یہ کنسلٹنسی سروسز ٹھیکہ دیامیر بھاشا کنسلٹنٹس گروپ نامی اشتراک کار کو دیا گیا ہے۔ اس کنسلٹنٹ گروپ میں 12 کمپنیاں شامل ہے جن کی مرکزی کمپنی نیسپاک ہے
پاکستان کی واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ٹھیکہ پاکستان کی فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(ایف ڈبلیو او) اور چین کی حکومتی کمپنی پاور چائنا کے اشتراک کار کو دیا گیا ہے۔گزشتہ برس واپڈاکےطرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈیم کی تعمیر کا تخمینہ 1406.5 ارب روپے ہے۔ ڈیم کی تعمیر پر فی الفور کام شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر سنہ 2028 میں مکمل ہو گی۔اسی طرح دیامیر بھاشا ڈیم پراجیکٹ کے ڈائی ورشن سسٹم، مین ڈیم، رسائی کے لیے پُل اور 21 میگاواٹ صلاحیت کے تانگیر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے دونوں کمپنیوں کے اشتراک کار کے ساتھ 442 ارب روپے مالیت کے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔
دیامیر بھاشا ڈیم پراجیکٹ ذرائع نے بتایا ہے کہ 175 ارب روپے ڈیم کے لیے زمین حاصل کرنے انکے اداٸیگیوں متاثرین کی آبادکاری اور مقامی ترقی کے لٸیے مختص کیے جاچکے ہیں مگر 2007 سے لیکر تادم تحریر واپڈا نے متاثرین سے اونے پونے میں زمین ہتھیانے کے علاوہ انکی آباد کاری پر زرہ برابر بھی کام نہیں کیا ہے جسکے وجہ سے متاثرین کے زہنوں میں واپڈا کیخلاف سخت جذبات جنم لینے لگے ہیں اور روزانہ کے بنیاد پر متاثرین مختلف ناموں سے اور مختلف طریقوں سے احتجاج دھرنے ۔جلسے جلوس کا نارکنے والا سلسلہ شروع کررکھا ہے کبھی پاکستان اور چین کو ملانے والی سی پیک کی گزرگاہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم کو غیر معینہ مدت تک کے لٸیے بلاک کیا جاتا ہے تو کبھی واپڈا آفس چلاس کے مرکزی آفس کے مین گیٹ پر تالہ لگادیا جاتا ہے مگر مجال ہیکہ واپڈا نامی ادارے کو ان ایکٹیوٹیز کی کوٸی اثر ہو ۔اربوں کی خطیر رقم دیامر کے تعمیر و ترقی کے لٸیے مختص کرنے کے باوجود واپڈا نے تعلیم کے حوالے سے تعلیمی اداروں کا جال بچھانے کے بجاۓ ماڈل کے طور پر ضلع بھر میں کوٸی ایک تعلیمی ادارہ بنانے میں ناکام رہا جو ماڈل کے طور پر کسی کو دکھا سکے اور صحت پر بھی اربوں رقم ہونے کے باوجود ایک ڈسپنسری نہ بناسکی البتہ عوامی بار بار احتجاج اور مطالبات پر ریجنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چلاس کو ایک کھٹارہ ایمبولینس دیدیا اور ایک دوسری ایمبولینس دینے کے بارے میں اعلی حکام کی سنجیدگی سے مشاورت جاری ہے البتہ دو برس قبل ریٹاٸرڈ ہونے والے جی ایم واپڈا عامر بشیر چوہدری نے اپنے پاکٹ منی سے لاکھوں کی آٸی سی یو کے لٸیے بھاری ضروری مشینری اور ڈاٸلاسز مشین و دیگر ضروری آلات فراہم کیا تھااس عمل کو عوامی سطح پر خوب سراہا گیا اور واپڈا نے تعمیر و ترقی کے لٸیے پہلا قدم اٹھاتے ہوۓ ویلیز پانچ پانچ کلو میٹر عوامی رابطہ سڑک کی تعمیر کرنیکا پابند تھا مگر ایک ایک کلو میٹر اور چند ویلیز میں دو سے ڈھاٸی کلو میٹر سڑک تعمیر کرنے کے نام پر اربوں لگاکر بھی استعمال کے قابل نہ بناسکا اور گیچی سمیت کچھ ویلیز میں اس منصوبے کی ابتدإ تک نہیں کیا گیا اربوں رقم سڑک کے تعمیر کے نام پر لگانے کے بعد عوامی شکایات پر کینسل کرنیکا ڈھنڈورا پیٹا گیا واپڈا کا ڈیم کے تعمیر سے قبل بطور ویلیز روڈ ٹیسٹ کیس تھا جسپر واپڈا مکمل ناکام ہوا انہی کشمکش۔ اتار چڑھاٶ دھینگا مشتی میں ڈیم بننے والے ضلعے کے متاثرین پھتر دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں
مگر دیر آید درست آید گزشتہ ہفتے واپڈا کا ایک مستند حوالہ تعمیر و ترقی کی کھلی علامت بریگیڈٸر ر محمد شعیب تقی نے چٸیر مین واپڈا جنرل مزمل حسین کے خصوصی احکامات پر متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم کے چیدہ چیدہ اہم قباٸلی شخصیات کو واپڈا کیمپ آفس اسلام آباد میں مدعو کیا جہاں دیامر کے تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی قباٸلی اور علاقاٸی حریفوں نے یک زبان یک جان اور یک قالب ہوکر متاثرین ڈیم کے جملہ مساٸل سمیت دیامر بھاشہ ڈیم سے جڑے تمام مساٸل کے حل کے لٸیے سر جوڑ لیا جو واپڈ کے لٸیے پریشانی کا سبب بھی بن گیا مگر اس بیٹھک کے بعد متاثرین ڈیم نے اطمنان کا اظہار کرتے ہوۓ بریگیڈیر محمد شعیب تقی اور انکے ٹیم کا دیامر میں سربراہ قباٸلی سپیشلسٹ رحیم شاہ پر مکمل امید کا اظہار کیا جو متاثرین ڈیم کے لٸیے خوشی کی نوید اور مستقبل قریب میں انقلاب کی کھلی دستک ہے.