تحریر: سعدیہ اکیرا
عنوان: میڈیا کا ہماری زندگیوں میں کردار
میڈیا چاہیے الیکٹرانک ہو شوشل میڈیا یا پھر پرنٹ میڈیا ہو اس کا ہر انسان کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے چاہے وہ کسی کا بیانیہ بنانا ہو یا بنا ہو بیانیہ ختم کرنا ہو میڈیا میں اتنی طاقت ہے کہ یہ انسانوں کی زندگی میں جس طرح چاہے اثر انداز ہو سکتا ہیں یہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی بھی لا سکتا ہے اور ہیجان بھی پیدا کرسکتا ہے اور ایک بہترین معاشرے کی تعمیر وترقی میں تعمیری کردار بھی ادا کرسکتا ہے
لیکن پاکستان کا میڈیا پتا نہیں کون سے اجنڈے پر کام کر رہا ہے کہ نہ اس کا کردار تعمیری طور پر نظر آ رہا ہے اور نہ تنقیدی طور پر خاص کر الیکٹرانک میڈیا کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ وہ خاص نکتہ نظر پر مخصوص پراپیگنڈا کررہا ہے لوگوں کو من چاہا بیانیہ دیا جارہا ہے حال ہی میں میاں صاحب جب ملک میں تشریف لا رہے تھے تو مختلف ٹی وی چینلز نے ان کو اس طرح سے دیکھایا کہ گویا پاکستان میں یا دنیا میں اس سے زیادہ اہم کا کوئی ہے ہی نہیں جبکہ کہ دیکھا جائے تو وہ اس وقت اشتہاری بھی تھے اور مجرم تو آج بھی ہے ابھی تک عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ تو نہیں دیا اس کے باوجود جس طرح بڑے چینلز نے سارا دن ٹراسمیشن کی ہے ان کی ایک ایک حرکت کو اس طرح بتایا جارہا تھا اور دکھایا جارہا تھا یہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
وہ ایک الگ بات ہے کہ سارا نظام ہی ان کا استقبال کررہا تھا لیکن جہاں تک بات ہے میڈیا کی تو اس کا کام تو حقائق دیکھنا ہیں نا کہ کسی ایک بات کو یوں اچھالنا کہ باقی سارے مسئلہ کہی چھپ جائے ۔ میاں صاحب کی واپسی سے پہلے کچھ فلسطین پر بات ہورہی تھی اب اسے بھی پس پشت ڈال دیا گیا ہیں اب یہ ایک معمولی سے خبر رہے گئ ہے ۔
آگر فلسطین کے مسئلے کو اسی طرح سے ہائی لائٹ کرتے تو پھر بھی سمجھ آتی لیکن وہ کٹے پٹے مدد اور امداد کے لیے مسلم ممالک کی طرف دیکھتے ہوئے فلسطینی لوگ اور صلاح الدین ایوبی کی طرح کسی مجاہد کو دیکھتی ہوئی مسجد اقصیٰ اب جان چکے ہیں کہ خود کو مسلمان کہنے والے صرف نام کے ہی مسلمان رہ گئے ہیں اور وہ صرف شاید الفاظ میں مذمت کر سکتے ہیں ۔ اگر میڈیا فلسطین کے مسئلے کو منظم طریقہ سے دنیا کو دیکھتے تو صہیونی طاقتیں کو ایک پیغام تو جاتا کہ فلسطینی تنہا نہیں ہیں لیکن افسوس ہم یہ بھی نہیں کرسکے۔
جہاں تک بات ہے شوشل میڈیا کی تو وہ صرف نوجوان کو گمراہ کرنے کے علاوا کچھ نہیں کررہا ہماری نوجوان نسل کو شوشل میڈیا کی یوں لت لگ چکی ہے کہ وہ سارا سارا دن موبائل پر اپنا ٹائم ویسٹ کرتے ہیں اس سے نوجوان کا جو سب سے بڑا نقصان ہو رہا ہے وہ محنت سے دور بھاگنا اور منفی رحجان کا بڑھنا اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہے جس سے ملک کا امن امان بری طرح سے متاثر ہو رہا ہے اب لوگ نا گھر میں محفوظ ہے اور نا گھر سے باہر
ہمارے آنے والے دور کے معمار اس ملک کا مستقبل جن بچوں پر منحصر ہے انہوں ایک اچھی اور تعمیری سوچ دینے کی بجائے ہم انہیں منفی رحجانات نفرت اور غصے کے سوا کچھ نہیں دیے رہے
لیکن افسوس اس وقت سب اپنی مراعات اور نفع کے علاؤ کوئی کسی کے بارے نہیں سوچ رہا پتا نہیں ہم اپنے آپ سے نکل کر اس ملک کے لیے کب کچھ کریں گے۔
اللّٰہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین