عالمی یوم نسواں
تحریر : طاہرہ مجید
تاریخ میں کچھ تحریکیں ایسی بھی ہیں جو بہت بدنصیب ہیں۔جس جوش ،ولولے اور مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے پختہ عزائم کے ساتھ انھیں کبھی ماضی میں شروع کیا گیا اُن کے ساتھ انصاف کرنا تو درکنار بلکہ اب ان تحریکوں کی اصلی ہیت ہی مسخ کر دی گئی ہےـ
ان میں ایک تحریک "یومِ خواتین” ہے ـ مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی میرا دل کڑھنے لگتا ہے ـ مجھے یقین ہوتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لیے عورتیں جو درزیوں کے چکر کاٹ رہی ہیں وہ کون سا انقلاب لائیں گی ـ ہر سال پہلے سے ذیادہ یہ تحریک مسخ ہوتی ہے جب گنتی کی کچھ خواتین بینر اٹھا کر باہر نکلتی ہیں جن پہ لکھا ہوتا ہے ” اپنا کھانا خود گرم کر لو ” یا "میرا جسم میری مرضی” تو وہ ایک آدھ جملہ سوشل میڈیا پہ اتنی تیزی سے گردش کرتا ہے کہ ساری سرحدیں عبور کر کے خواتین کے عالمی دن کا ستیاناس کر دیتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں عورت کو حاصل شدہ سبھی حقوق جو مذہب نے عطا کیے وہ ذات پات ، رسم و رواج ،ثقافت اور انا کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ـ مذہب اسلام کے نام پہ عورت کو کچھ بھی نہیں ملا جس کی وہ حقدار تھی ـ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان عورت کے سر پہ ہمیشہ سے بیک وقت تین طلاق اور شوہر کی دوسری شادی کا خوف ہی لٹکتا رہتا ہے۔ جہاں مذہب کلچر سے ٹکراتا ہے وہاں مذہب کو لپیٹ دیا جاتا ہے اور رسم و رواج کو فوقیت دے دی جاتی ہے جیسے کہ بہو، بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت سے یہ کہہ کر بے دخل کر دیا جاتا ہے کہ بہنیں بھائیوں سے حصہ لیتی اچھی نہیں لگتیں۔ اور جہاں مذہب سے گھی نکلتا ہوں وہاں نکال لیا جاتا ہے کہ والدین نے جہاں رشتہ طے کر دیا وہاں آمین کہہ دو۔۔۔دوسری جانب ہماری لبرل خواتین کے مسائل ہماری گھریلو خواتین کے مسائل سے بالکل متضاد ہیں۔ لبرل ہونا تو کوئی معیوب بات نہیں۔ آزاد خیال ہونے میں کوئی برائی نہیں مگر لبرل ازم کو بدنام کرنا اچھا نہیں۔ ہماری ایلیٹ کلاس خواتین کے مسائل ہمارا جابر معاشرہ اور مرد راج بالکل نہیں ہیں۔ یہ خواتین تو مردوں کو کچلتے ہوئے آگے نکل چکی ہیں۔ یہ جائیداد سے حصہ لینا بھی جانتی ہیں۔ یہ لڑنا جھگڑنا بھی جانتی ہیں۔ ان کو خود پر مکمل اعتماد ہے۔ ان کو قانونی چارہ جوئی کے راستے بھی معلوم ہیں۔ ان کا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے مادر پدر آزادی حاصل کرنا۔ یہ یورپ سے متاثرہ دماغ ہیں۔ یورپ سے متاثر ہونا بھی کوئی معیوب نہیں اگر یورپ یا مغربی سوسائٹی کے باقی پہلووں کو بھی اپنانے کا سوچیں جیسے کہ کسی پر الزام لگانا قابل تعذیر جرم ہے۔ کسی کو گالی دینا۔ مرد کو گھورنا بھی اور عوامی جگہوں پر غیر مناسب الفاظ کا استعمال وغیرہ وغیرہمیں بار بار کہتا ہوں کہ یہ دو انتہاوں میں گھرا معاشرہ ہے۔ یہاں میانہ روی یا معتدل مزاجی کبھی جنم ہی نہیں لے سکی۔ہمارے تمام مسائل انہی دو انتہاوں کے بیچ غرق ہو کے رہ جاتے ہیں۔میں جب مقامِ بی بی فاطمہ کے بارے سوچتا ہوں تو مجھے اقبال کا واقع یاد آ جاتا ہے کہ جب اقبال نے اپنے استاد شمس الحسن کا نام شمس العلماء کے خطاب کے لیئے پیش کیا تو کمیٹی کے اراکین نے پوچھا کہ ان کی تصنیف کیا ہے ؟ اقبال نے فرمایا "میں ہوں ان کی تصنیف”۔ آپ اگر محمد کی بیٹی ، علی کی بیوی ، خاتونِ جنت کو چھوڑ بھی دیں تو کربلا میں کھڑے حسین بی بی فاطمہ کے کردار کا تعین کرتے نظر آئیں گے کہ "میں ہوں ان کی تصنیف”آج پاکستان کے تمام شہروں میں غیر ملکی خشبوؤں سے معطر ۔ الٹرا ماڈرن خواتین آزادی ء نسواں کے سیمینار کرتی ہیں۔عورت کے حقوق ، عورت کی آزادی اور عورت کی برابری کے لئیے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہ ملک جو غربت کے 127 نمبر پر ہے جس میں آٹھ کڑور سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اس کا تقابل یورپ کی عورت سے کیا جائے گا اور سارے ہال میں کوئی ایک خاتون بھی بی بی فاطمہ کا ذکر نہیں کرے گی جو بچی تھیں تو اپنے دور کے سب سے بڑے انسان کے زخم دھوتی تھیں ، لڑکی تھیں تو اپنے دور کے سب سے بڑے شجاع کو ذرہ پہناتی تھیں اور خاتون تھی تو تاریخ کے سب سے بڑے شہید کی پرورش کرتی تھیں اور جس نے زندگی سے ،معاشرے سے عمر بھر کچھ نہیں لیا ، صرف دیا۔دکھ تو یہ بھی ہے کہ میڈونا اور الزبتھ ٹیلر جیسی زندگی کی خواہش مند خواتین یہ بھول گئیں کہ ان کی تاریخ میں ایک فاطمہ بھی تھی۔ چلیئے دوسرا رخ دیکھ لیجیئے۔ بالفرض آپ پریکٹس مسلم نہیں بھی، چلیں فرض کر لیجیئے کہ آپ مذہب سے باغی ہیں، ایتھسٹ ہیں یا آپ کے جو بھی نظریات ہیں ان کو رکھنے کا آپ کا حق ہے۔ بالکل رکھیئے۔ جیسے چاہیئے زندگی بسر کیجیئے۔ جب چاہیں، جس سے چاہیں، جہاں چاہیں ، جو چاہیں اپنی منشاء سے کیجیئے۔ دوستیاں ہوں یا گھریلو امور ، اپنے لائف اسٹائل کے مطابق ڈھال لیجیئے۔ کوئی مائی کا لال آپ کو نہیں روکے گا۔ کوئی تلوار لے کر آپ پر مسلط نہیں ہو گا۔ آپ اپنی اور اپنے سے جڑے لوگوں کی ذات تک جو مرضی کیجیئے کون روک سکتا ہے ؟ کون روکتا ہے ؟الغرض جو چاہیئے ویسا روپ اپنا لیجیئے ۔ شرط یہ ہے کہ جس معاشرے میں آپ بستے ہیں وہ جیسا تیسا سہی ، جعلی و منافق ہی سہی، مگر ہے اسلامی معاشرہ۔ آپ کو یہ حق تو نہیں پہنچتا کہ اپنے معاشرے کا سوشل فیبرک تار تار کر دیں۔ پبلک یا عوامی اجتماعات میں آزادی اظہار رائے کی ڈھال لئے سوسائٹی نارمز کی دھجیاں اڑا دیں۔ یہ حق تو آپ کو کسی مہذب معاشرے کسی مغربی معاشرے میں بھی نہیں ملتا کہ آپ وہاں ان کے سوشل فیبرک کو توڑنے کی تحریک چلائیں۔ انسان جہاں بستا ہے اس کی معاشرتی روایات کے اندر رہتے ہوئے ان کا احترام کرتے ہوئے ہی بس سکتا ہے وگرنہ آپ کے اردگرد بسے لوگ آپ سے نالاں ہوں گے اور غصہ بھی کریں گے۔ کیا اب آپ کو اتنی سوجھ بوجھ بھی نہیں کہ سادہ سا قانون ہے ” ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ کشش کی یہ دونوں قوتیں آپس میں برابر مگر سمت میں مخالف ہوتی ہیں”۔آپ چوک میں مرد کی تذلیل نہیں کرتیں آپ اپنے باپ، بھائی، شوہر، چچا، تایا، ماموں سب کی تذلیل کرتی ہیں۔ آپ کے اندر کا مرد مار غصہ بجا ہو گا، مرد عورت کا بنام مذہب، بنام رسم و رواج ، بنام خاندانی روایات استحصال کرتا آیا ہے مگر آپ کا اظہار رائے طبل جنگ بجانے کے مترادف ہے اور جنگ میں فتح اسی فریق کی ہوتی ہے جو پہلے ہی طاقتور ہو۔ آخر اس سے آپ کو ملے گا کیا ؟کوئی مڈل کلاس عورت، کوئی لو مڈل کلاس عورت، کوئی جھگی والی، کوئی کچے مکان والی، کوئی دو وقت کی روٹی کو ترستی، کوئی دربدر پھرتی، کوئی گھر سے نکالی ہوئی، کوئی درباروں و مزاروں پر آسرا ڈھونڈنے والی۔ کوئی تھی آپ کے ساتھ ؟ او کوئی نمونہ عورت ہی لے آو دکھانے کو کہ یہ مظلوم عورت ہے۔
"مجھے حیا سکھانے سے پہلے اپنی سرچ ہسٹری چیک کراو”
"اپنی ماں، دادی، نانی کا بدلہ لوں گی”
"مردانہ کمزوری۔۔۔ اینڈ آف سٹوری”
کیا یہی نعرے مسائل ہیں ؟ کیا وراثت کے حقوق، طلاق کا حق، کاروکاری، وٹہ سٹہ، قرآن سے شادیاں، ریپ، ورک پلیس ہراسانی وغیرہ وغیرہ سب حل ہو گئے ؟ صرف حیا کوئی نہ سکھائے آپ کو ؟ اور ابو،دادا و نانا سے بدلہ لینے سے کون روک رہا ہے جو چوراہے میں آ کر مطالبہ کرتی رہیں ؟ ان تینوں کو لائن میں لگا کر سو جوتے ماریں، کون روک رہا ہے ؟ مردانہ کمزوری individual act ہو سکتا ہے معاشرے کا کیا قصور آپ کے ساتھ پیش آنے والے اس حادثے میں ؟مادر پدر آزاد گوچی پرفیوم سے مزین چند آنٹیاں اور ان کی مینگو جینز بردار بچیاں اس حبس زدہ معاشرے میں دم گھٹتی عورت کی ترجمان ہیں ؟ سچی ؟وطن عزیز میں کم و بیش 11 کروڑ خواتین و بچیاں بستی ہیں۔ 30 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ 40 فیصد ہماری سفید پوش لوئر مڈل کلاس ہے۔ 20 فیصد مڈل کلاس ہے۔ ان کے حقوق کی بات کون کرے گا ؟ آپ کو تو فرانس کا ویزہ بھی مل جائے گا حقیقی مظلوم عورت کا کیا بنے گا ؟؟؟
عورت اور اسلام
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا اور دو صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ نے جہاں پر بڑی تعداد میں مردوں کو پیدا کیا وہیں پر عورتوں کو بھی تخلیق کیا۔ عورت تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حیثیت کی حامل رہی۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت کو سامانِ لذت سمجھا جاتا تھا اور مرد اپنی سوتیلی ماں سے بھی شادی کر لیا کرتے تھے۔ بیوی کی حیثیت سے اس کے حقوق کی وضاحت نہ تھی اور اس کو مملوکہ لونڈی کی حیثیت دی جاتی تھی۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر زمانۂ جاہلیت کے لوگ اس قدر غم اور تذلیل محسوس کرتے تھے کہ اس کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد عورت کو مختلف حیثیت سے ایک بلند مقام حاصل ہوا اور اس کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے معاشرے میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔ خصوصاً ماں کے مقام کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا‘‘۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت مغیرہؓ بن شعبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں اور باپ کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے اور فضول گفتگو کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
3۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں! اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: پھر تمہارا والد۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماں کو اتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت والد کے ساتھ حسنِ سلوک سے بھی زیادہ ہے۔
عورت کو بیٹی کے روپ میں بھی بہت زیادہ عزت سے نوازا گیا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی گئی۔ بیٹی کے نکاح کے موقع پر اس کی رضامندی کو ضروری قرار دیا گیا اور والد یاسرپرست کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ نکاح کے معاملے میں بیٹی پر زبردستی کرے۔ گو احادیث مبارکہ کے مطابق بیٹی کے لیے بھی اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنے کی گنجائش نہیں؛ تاہم اگر ولی بیٹی کے ساتھ زبردستی والا معاملہ کرتا ہے تو بیٹی کوایسے نکاح کو فسخ کروانے کا بھی اختیار دیا گیا۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کی وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا، حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو‘ جو جاریہ کے بیٹے تھے‘ کہلا بھیجا۔ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
اسی طرح بیٹی کو بھی بیٹے کی طرح وراثت میں حقدار قرار دیا گیا ہے اور وراثت کو ہڑپ کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مالِ وراثت کی تقسیم میں ناانصافی سے کام لینے والے لوگ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے حکم سے انحراف کرتے ہیں۔
بیوی کی حیثیت سے بھی عورت کو بلند مقام عطا کیا گیا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19میں اس امر کا اعلان فرمایا : ”اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے‘ پھر اگر تم ناپسند کرو اُن کو تو ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو او ر رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں بہت بھلائی‘‘۔ شریعت میں بیوی کے مالی حقوق کو بھی متعین کیا گیا اورحق مہر کے ساتھ ساتھ اس کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی مرد پر عائد کی گئی ہے۔ اسی طرح مرد کو بیوی کو بلاوجہ ایذا دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ عورت کو خاندان میں رہتے ہوئے جہاں پر ایک نمایاں حیثیت دی گئی ہے وہیں پر اس کے لیے زندگی کے مختلف معاملات میں حصہ لینے کے امکانات بھی برقرار رکھے گئے ہیں۔ لیکن ان تمام معاملات میں حصہ لینے کے لیے اس کو پردے کی پابندی کرنا ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر، اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی) عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زر خرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والے (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے وہ جو چھپاتی ہیں اپنی زینت سے اور تم توبہ کرو اللہ کی طرف سے اے ایمان والو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے پردے کا بھرپور انداز میں تحفظ کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشرے میں عزت اور وقار سے زندگی گزار سکے۔
اسلا م میں عورت کے شرف کو بلند کرنے کے لیے اس کی تجارت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جن عورتوں کو ناجائز دھندے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ اس حوالے سے رضامند نہیں ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو مجرموں اور گناہ گاروں میں شمار نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور نہ تم مجبور کرو اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر اگر وہ چاہیں پاکدامن رہنا تاکہ تم تلاش کرو دنیوی زندگی کا سامان اور جو مجبور کرے گا انہیں تو بے شک اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بہت بخشنے والا نہایت رحم والا ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی کردار کشی کرنے والوں کی سختی سے مذمت کی ہے اور ایسے لوگ جو عورت پر چار گواہوں کے بغیر تہمت لگاتے ہیں‘ان پر حد قذف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو مارو انہیں اسّی کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔
اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو نازیبا حالت میں دیکھے تو ایسی صورت میں بھی وہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا بلکہ اس کو شرعی عدالت میں جا کر لعان کے عمل کو مکمل کرنا چاہیے جس کی تفصیل سورہ نور کی آیت نمبر 6 سے 9میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ”اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں اپنی بیویوں پر اور نہ ہوں ان کے لیے (اس پر) گواہ مگر اُن کے نفس (یعنی وہ خود ) تو گواہی ان میں سے (ہر) ایک کی اللہ کی قسم کے ساتھ چار گواہیاں ہیں کہ بلاشبہ وہ یقینا سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں (بار یہ کہے) کہ بے شک اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر ہو وہ جھوٹوں میں سے۔ اور ٹال دے گی اس (عورت) سے سزا کو (یہ بات) کہ وہ گواہی دے چار گواہیاں اللہ کی قسم کے ساتھ (کہ) بلاشبہ وہ یقینا جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار (عورت یوں کہے) کہ بے شک اللہ کا غضب (نازل) ہو اس پر اگر ہو (مرد) سچوں میں سے‘‘۔
ان تمام آیات اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا ضامن اور سب سے بڑا رکھوالا ہے۔ بعض عناصر اسلام کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانی پید ا کرکے عورت کے ا ن حقوق کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں جو شرعی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے کسی بھی سلجھے ہوئے معاشرے میں قبول نہیں کیے جا سکتے۔ ”میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ کا نعرہ درحقیقت بے راہ روی اور بداخلاقی پر مبنی نعرہ ہے جو عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے عورت کو بے راہ روی کے راستے پر چلانے کا سبق دیتا ہے۔ خواتینِ اسلام کو ان نعروں سے متاثر ہونے کے بجائے کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور ازواجِ مطہراتؓ، بنات النبیﷺالطاہراتؓ اور صحابیاتِ کریمات ؓ کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خواتین کے حقوق ادا کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین!