روزنامہ سچ انٹرنیشنل نیوز کے مطابق
سانحہ کوہاٹ جب پاک فضائیہ کی سنئیر قیادت شہید ہو گئی آج کے ہی دن 20 فروری 2003ءبروز جمعرات کو پاک فضائیہ کے F27 فوکر طیارے نے چکلالہ ایئربیس سے اڑان بھری تھی اور چند منٹ کی پرواز کے بعد اس وقت گر کر تباہ ہو گیا جب پہاڑوں میں گھرے کوہاٹ کے ہوائی اڈے پر اترنے میں صرف چار منٹ کا راستہ باقی تھا۔
طیارے کے پائلٹ احمد یوسف (سکواڈرن لیڈر) نے ایئرٹریفک کنٹرول کو کال کر کے لینڈنگ کی اجازت مانگی جو ایک نارمل کال تھی۔ پائلٹ نے کنٹرولر کو بتایا کہ بس ہم اترنے ہی والے ہیں۔ اس کے بعد طیارے کا کنٹرول سے رابطہ منقطع ہو گیا۔
اس حادثے میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر‘ ان کی اہلیہ بیگم بلقیس میر‘ دو ایئروائس مارشل عبدالرزاق اور سلیم نواز‘ دو ایئرکموڈور سید جاوید صابر اور رضوان اللہ، گروپ کیپٹن آفتاب چیمہ‘ ونگ کمانڈر تبسم عباس‘ 3سکواڈرن لیڈر‘ پائلٹ احمد یوسف‘ سکواڈرن لیڈر عبدالرب اور نیوی گیٹر سکواڈرن لیڈر ممتاز محمود کیانی‘ دو سینئر ٹیکنیشن خان محمد اور غضنفر اور 4 کارپورل ٹیکنیشن امجد پرویز‘ خوش قدم شاہ‘ فیاض اور اشرف‘ کل 17 افراد شہید ہوئے۔
سانحہ بہاولپور کے بعد یہ دوسرا فضائی حادثہ تھا جس میں سینئر ترین قیادت شہید ہوئی۔
شہید ہونے والے مصحف علی میر پاک فضائیہ کے 16ویں سربراہ تھے اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ میں بھی حصہ لے چکے تھے۔
کوہاٹ کے حادثے میں جس مرتبے کے لوگ اس دنیا سے رخصت ہوئے اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے بڑا قیمتی وقت صرف ہوتا ہے اور بڑے قیمتی وسائل خرچ ہوتے ہیں۔
آفرین ہے پاک فضائیہ کی اس وقت کی بقیہ قیادت پر جس نے فوری طور پر فضائیہ کے تمام اڈوں پر ہائی الرٹ کرتے ہوئے ایئرمارشل سید قیصر حسین کی قیادت میں فضائیہ کو سنبھالا اور دشمن کو کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی۔
مصحف علی میر شہید فضائیہ کی تاریخ میں دنیا بھر میں فضائیہ کے ذہین ترین ایئرمارشل تھے۔ پاکستان کو ہمیشہ یہ فخر حاصل رہا ہے کہ اس کی ایئرفورس میں ہر فرد غیرمعمولی ذہانت‘ قابلیت‘ مہارت اور جرات کا حامل رہا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ دنیا نے ہندوستان کے خلاف ونگ کمانڈر نعمان علی اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کے روپ میں دیکھا۔
اس F27 فوکر کے حادثے میں شہید ہونے والے آفیسر اور تمام ٹیکنیشن بھی آﺅٹ سٹینڈنگ کارکردگی کے حامل تھے اور وہ اسی وجہ سے چیف کے بیڑے میں شامل تھے۔ یہ نہایت تندہی اور چابکدستی سے طیارے کو پرواز کے لیے تیار کرنے والے ٹیکنیشن اور باصلاحیت اور مشاق پائلوں کو بالخصوص منتخب کر کے اس قسم کے طیاروں کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔
اہم فوکر طیارہ VIP سکواڈرن کا وہ طیارہ تھا جو کہ پاک فضائیہ کے چیف کے ذاتی استعمال کے لیے تھا۔ اس طیارے پر ہی سال 2002ءمیں جاری کشیدگی کے دوران ایئرچیف مصحف علی میر نے پورے ملک میں فضائیہ کے اڈے وزٹ کیے تھے۔
سکردو سے کوئٹہ تک کے سفر اسی فوکر طیارے پر کیے گئے۔ فارورڈ آپریشنل بیسز پر پائلٹوں‘ انجینئروں اور ٹیکنیشنز کے کندھوں پر تھپکیاں دیتے نظر آنے والے ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کشیدگی میں کبھی بھی چہرے پر پریشانی و تفکرات نہ لاتے تھے۔
اس باعزم مجاہد کے چہرے پر نظر آنے والے وقار اور خود اعتمادی نے فضائیہ کو ایک منفرد اور جدید انداز عمل سے نوازا تھا۔ وہ جس بھی ایئربیس کے دورے پر جاتے ان کا انداز ہمیشہ تنقیدی اور مثبت عمل کی جانب مائل نظر آتا تھا
انسانی جانوں کا نقصان تو ایک سانحہ ہوتا ہی ہے‘ لیکن اگر ضائع ہونے والی جانوں کا تعلق قومی نوعیت اور خود قومی سلامتی سے ہو تو یہ سانحہ اور بھی المناک بن جاتا ہے۔