روز کرتا ہوں میں مٹی کے کھلونے پہ ملال
یعنی اس جسم میں اس روح کے ہونے پہ ملال
ایک دہقاں کو رہا آخری پل تک پل پل
آنکھ کے شہر میں اک خواب کو بونے پہ ملال
جیتےجی حال بھی مجھ سےکبھی دریافت کیا
کس لئے لائے ہو اب چین سے سونے پہ ملال
مجھ میں امید کے سورج کو اگانے والے
کچھ تو ہوتا مجھے اشکوں میں ڈبونے پہ ملال
اتنا قرضہ ہے مری سوچ کے سینے پہ سوار
اب نہ پانے پہ خوشی اور نہ کھونے پہ ملال
مجھ پہ جس داغ کےلگنے سے وہ رہتےتھےاداس
اب اسی کو انہیں ہر وقت ہے دھونے پہ ملال
نفسہ نفسی ہو جہاں ایسے زمانے میں سعود
کون کرتا ہے کسی شخص کے رونے پہ ملال