ایک تدبیر عمل میں لائی گئی۔میں ایک طرف،مولوی محمد دوسری طرف،گاؤں کا کوئی شکاری تیسری طرف اور دو بندوق والے چوتھی طرف گھیر کر کھڑے ہوئے۔ہم سب زمین پر چھپر سے تیس تیس چالیس گز دور کھڑے تھے۔چھپر اور سوراخ اور اس پر ڈھکا ہوا ایک ٹوکر اہم سب کو بخوبی نظر آرہا تھا۔ جب ٹوکرا سوراخ پر سے رسی کے ذریعے گھسیٹ کر ہٹا گیا تو ہم اپنی اپنی بندوقیں شانے پر لے آئے اور بوربچے کے استقبال یا’’گارڈ آف آنر‘‘ کے لیے تیار ہو گئے لیکن وہ باہر نہ نکلا۔
تین چار آدمیوں کو بھیجا کہ مکان کے صحن میں جاکر غل غپاڑہ کریں۔جونہی یہ لوگ چلاتے ہوئے مکان کے صحن میں داخل ہوئے،درندہ بھی غراتا ہوا اس تیزی سے باہر کودا کہ کسی شخص کو فائر کا موقع نہ ملا۔ایک زرد گیند سی اچھلتی ہوئی نظر آئی جوگولی کی طرح کولی کی طرف گئی۔غل ہوا اور پھر یہ سنائی دیا کہ کولی کی کھوپڑی بوربچے نے چبا ڈالی اور جنگل کی راہ لی۔یہ سارا واقعہ چند سکینڈ میں وقوع پذیر ہو گیا۔غور کیجیے،گاؤں کے پچاس ساٹھ آدمی، ہمارے کیمپ کے دس بیس افراد،خود ہم دو الگ۔سب کو ایک چھلاوے کی مانند درندہ نظر آیا مگر کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو اس مہلک حادثے کی تفصیل چشم دید بیان کر نے کے قابل ہو۔مختلف بیانوں اور واقعات کے ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر سارا واقعہ سمجھ میں آیا۔
بوربچے کی یہ عادت بھی بیان کرنے کے قابل ہے کہ وہ اپنے شکار کیے ہوئے جانور یا انسان کو کھانے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔بار بارلاش پر آتا ہے۔بڑے شکاری اس کے شکار کی طرف کم توجہ کرتے ہیں کیونکہ اسے شیر سے کم درجے کا جانور سمجھتے ہیں۔اگر آبادی کے قریب بوربچے کا شکار کرنا ہو تو ایک درخت سے بکری باندھ کر ہی بیٹھ جانا بہت ہے۔اکثر شکاریوں کو بوربچے جنگل اور پہاڑوں میں چلتے نظر آتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔ایک دن یورپین لیڈی اپنی گھوڑا گاڑی پر جنگل میں سے گزر رہی تھی۔ یکایک گاڑی سے تیس گز کے فاصلے پر ایک بوربچہ دکھائی دیا۔ یہ فوراً اس پر فائر کرنے کے لیے تیار ہو گئیں مگر وہ مکار گاڑی رکتے ہی فوراً جھاڑی کی اوٹ میں ہو گیا۔جس جانور کے رعب داب کی یہ حالت ہو، اس کے شکار کوشیر سے کیا نسبت۔۔۔انہی لیڈی صاحبہ نے اسی جنگل میں شیر کی دہاڑسنی تو تھر تھر کانپنے لگیں،رنگ فق ہو گیا۔سپید سنگ مر مر کی تصویر معلوم ہوتی تھیں۔بوربچے کبھی کبھی بلاوجہ بغیر چھیڑے انسان پر حملہ کر بیٹھتے ہیں۔اس کا ایک ذاتی تجربہ جو نہایت دلچسپ ہے بیان کرنے کے بعد بوربچے کا ذکر ختم کروں گا۔
ایک دن شام کے وقت میں اور میجر نواب سید ولایت حسین صاحب رسالے کے چند نوجوانوں کو لے کر ایک خطرناک بوربچے کی تلاش میں نکلے۔نواب صاحب کے ایک مصاحب چنوں میاں بھی ساتھ تھے۔ان حضرت نے اپنے غلط اشاروں سے مجھ کو بوربچے کے عین اوپر کو دوا دیا۔۔۔یہ بوربچہ چٹان کے نیچے بیٹھتا تھا۔ اگرقریب جاتے تو یہ دکھائی نہ دیتا،پتھر رکاوٹ بن جاتے۔تجویز یہ ہوئی کہ میں چکر کھا کر پہاڑ پر چڑھ جاؤں اور جس کے نیچے درندہ بیٹھا ہے،اس کے اوپر پہنچ کر فائر کروں۔چنوں میاں میدان میں کھڑے رہیں اور رومال کے اشارے سے مجھے بوربچے کا پتا نشان بتاتے رہیں تاکہ میں ٹھیک اس کے اوپر پہنچ سکوں۔میں دور کا چکر کاٹ کر میدان کے سامنے آگیا تو چنوں میاں نظر آنے لگے۔یہ حضرت رومال ہلا ہلاکر مجھ کو ٹھیک بوربچے کی چٹان پر لے آئے۔جب میں صحیح مقام پر پہنچا تو بجائے اسکے کہ مجھے فائر کرنے کا اشارہ کرتے۔انہوں نے کئی بار جلد جلد نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ میں اس چٹان سے تقریباً آٹھ فٹ اونچائی پر تھا جس کی آڑ میں درندہ چھپا ہوا تھا۔ اتنی بلندی سے کودنا کچھ مشکل نہ تھا۔ میں بندوق سنبھال کر آہستہ سے نیچے کی طرف پھسل پڑا اور ٹھیک بوربچے کے پچھلے حصے پر گرا۔
اس آفت ناگہانی بلکہ بلائے آسمانی سے جو یکایک اس غریب پر نازل ہوئی، بوربچہ ایسا گھبرایا کہ سوائے راہ فرار اختیارکرنے کے اس سے کچھ نہ بن پڑا۔مسلسل پچاس گز تک دم دبائے غر غر کر تا بھاگتا رہا۔میری یہ حالت ہوئی کہ اس کے اٹھنے سے میں تقریباً اوندھے منہ گرا۔بدحواسی میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ بھاگتے ہوئے بوربچے کو ماردوں۔دور سے چنوں میاں نظر آئے۔انہیں اوچھے القابات و خطابات سے یاد کرتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ان حضرات اور نواب صاحب تک پہنچنے میں شام ہو گئی۔خوب خوب قہقہے بھی لگے اور لعنت ملامت کا سلسلہ بھی رہا۔ اس کے بعد ہم لوگ مکان کی طرف واپس ہوئے۔پہاڑ کے نیچے بالکل اس کے دامن میں جانوروں کی آمدورفت سے ایک پگڈنڈی سی بن گئی تھی۔ آگے میں،میرے پیچھے نواب ولایت حسین صاحب اور ان کے عقب میں چنوں میاں آہستہ آہستہ آرہے تھے۔اندھیرا بڑھ گیا تھا اور محض کاہلی کی وجہ سے میں نے اپنی بندوق چنوں میاں کو دے دی تھی۔ نواب صاحب نے بھی اپنی بندوق اردلی کے سر منڈھ دی تھی۔اردلی اور رسالے کے سب جوان ادب کی وجہ سے پچیس تیس گز پیچھے چل رہے تھے۔
جب ہم مکان کے نزدیک پہنچے تو دفعتاً پہاڑ سے بوربچوں کا ایک جوڑا ہم پر غرایا اور اس سے پیشترکہ ہم سنبھلیں۔انہوں نے غاؤں غاؤں کرکے ہم پر ہلہ بول دیا۔ میں اور نواب صاحب رکے اور چلا کر ملازموں سے کہا کہ بندوقیں لاؤ۔اس دوران میں دونوں بوربچے ہم سے تین گز پر پہنچ گئے۔میں پھر چلایا کہ کم بختو ،بندوق دے دو۔میری اس آواز سے بوربچے ٹھٹک گئے اور عف عف کرتے ہوئے دوبارہ پہاڑ پر جاچڑھے۔اب جو میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو چنوں میاں بندوق لیے سر پٹ بھاگے جارہے تھے۔ہم نے انہیں آواز دے کر بلایا۔ قریب آئے تو موصوف کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔ میں نے کہا ’’یہ کیا حرکت تھی؟بندوق لے کر بھاگے کیوں؟‘‘ فرمایا:’’خدا کی قسم، بھاگا نہیں تھا بلکہ برچھا لینے جارہا تھا۔‘‘اگر ہم بھی ان’’شجاعت پناہ‘‘ کی حماقت میں شریک رہتے تو شاید آج یہ داستان سنانے کے لیے موجود نہ ہوتے۔
(جاری ہے )