چاندنی رات تھی لیکن دو بجے کے لگ بھگ چاند غروب ہو گیا۔تاریکی چھا جانے پر بھی ظالم چٹان یا بکری کے پاس نہ پھٹکا۔ میری آنکھ لگ گئی اور دھوپ نکلنے تک میں غافل سوتا رہا۔سات بجے کے قریب میرے اردلی نے مجھے بیدار کر کے دکھایا۔کہ بوربچہ اپنی گوی کے سامنے پتھر پر بیٹھا ہے۔وہ غالباً مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔ ادھر میں نے بندوق اٹھائی، ادھر وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ، فاصلہ سوا سو گز نپا ہوا تھا۔ میں نے دل پر نشانہ لے کر فائر کیا۔بجائے دل کے گولی گردن میں لگی۔درندہ تڑپ کر لڑھکتا ہوا گرا اور ختم ہو گیا۔اس کا قد چھ فٹ آٹھ انچ نکلا۔
اس درندے کے متعلق یہ رائے قائم کرنا کہ وہ دلیر ہے یا بزدل، مشکل کام ہے۔بعض اوقات وہ دلیرانہ حملہ کرتا ہے لیکن کبھی کبھی رات کے وقت بے حد بزدلی کا مظاہرہ بھی کرتا ہے،مثلاً جب اس کے تعاقب میں گھوڑا ڈالا جائے تو یہ کم ہمت گیدڑ کی طرح دم دبا کر بھاگتا ہے اور سوڈیڑھ سوگز کے اندر برچھے سے شکار ہو جاتا ہے۔جنرل نائٹ انگیل اسی قسم کے شکار میں قلب کی حرکت ٹھہر جانے سے مر گئے تھے۔میں نے میجر نواب ماہر الدولہ اور رسالدار شاہ میر خان مرحوم سے ان کا چشم دید واقعہ اس طرح سنا ہے کہ جنرل صاحب کر برچھے سے بوربچے کا شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔ مومن آباد اور بنگولی کی چھاؤنیوں میں اس کا اکثر موقع مل جاتا تھا۔جنرل صاحب مشہور شہسوار تھے۔اکثر عربی گھوڑوں پر بوربچے کا تعاقب کرتے۔تقریباً بیس پچیس بور بچوں کو جنرل صاحب نے گھوڑا دوڑا کر سوڈیڑھ سو گز کے اندر برچھے سے ہلاک کیا۔نواب ماہر الدولہ بہادر اور جنرل سر افسر الملک بہادر بھی جنرل صاحب کے ساتھ ان مہموں پر جایا کرتے تھے۔جب ان کا تبادلہ الوال پر ہوا تو یہاں نہ میدان تھا، نہ ناگ پھنی کے پودے،جن میں بوربچے اکثر چھپ جایا کرتے تھے اور جنرل صاحب انہیں ان پودوں سے نکالا کرتے تھے۔صاحب نے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے پنجرہ بنوا کر کئی بوربچے گرفتارکرائے اور اسکندر آباد کی رپیڈ گراؤنڈ میں انہیں دوڑا کر شکار کیا۔
حیدر آباد کے اکثر امراء اور معززین کو جب اس انوکھے شکار کی خبر ملتی تو تماشا دیکھنے اسکندر آباد ضرور جاتے۔الوال سے چند میل پر کسی بزرگ کا مزار ہے اور یہ مشہور تھا کہ اس مزار پر ایک بوربچہ دم سے جھاڑودیا کرتا ہے۔جنرل صاحب نے وہاں پہنچ کر پنجرہ لگایا اور اس بوربچے کو گرفتار کرلیا۔دوسرے دن صبح وہ پنجرہ پریڈ گراؤنڈ میں لایا گیا۔کئی بڈھے رسائی داروں اوررسالداروں نے جنرل صاحب کو منع کیا کہ آپ اس بوربچے کو نہ ماریں مگر صاحب نے ہنس کر ٹال دیا۔جنرل صاحب کے پاس ایک بہت عمدہ عربی گھوڑا تھا اور اکثر وبیشتر اسی پر سوار ہو کر اس طرح کا شکار کھیلتے تھے۔ اب یہ عجیب بات کہ اس روز جب جنرل صاحب اس پر سوار ہوئے تو وہ اڑ گیا۔اس سے قبل اس نے کبھی ایسی حرکت نہ کی تھی۔یہ دیکھ کر پھران بڈھوں نے جو صاحب سے بے تکلف تھے، اصرار کیا کہ آج آپ اس بوربچے کا شکار نہ کریں لیکن صاحب نے ایک نہ سنی اور گھوڑے کو مہمیز کرکے روانہ ہو گئے۔ماہر الدولہ اور شاہ میرخان بھی ساتھ آئے اور اس المناک واقعے کے راوی ہیں۔
پنجرہ آچکا تھا۔ اسے پریڈ گراؤنڈ کے بیچ میں رکھ کر ایک سوار نے دروازے کی رسی کھینچ دی اور خود گھوڑا دوڑا کر چلا آیا۔جنرل صاحب اپنے گھوڑے کو کاوا دے رہے تھے۔گھوڑا چونکہ اس شکار کا عادی تھا اس لیے اپنی عادت کے مطابق پنجرہ دیکھتے ہی بے چین ہو جاتا تھا اور اکثر جنرل صاحب اسے کاوا دیا کرتے تھے۔ آج بھی یہ عمل معمول کا کام سمجھا گیا۔بوربچہ پنجرے سے دیر میں نکلا، پھر نکل کر پنجرے کے اوپر کود گیا اور بیٹھ کر ان تماشائیوں کی طرف دیکھنے لگا جو وہاں کثرت سے جمع تھے۔دستور یہ تھا کہ جب درندہ بیس پچیس گز دوڑ لیتا، تب گھوڑا اس کے تعاقب میں بھگایا جاتا۔ جنرل پنجرے سے چالیس پچاس گز دور مغرب کی جانب گھوڑے کو کاوادے رہے تھے۔سب یہ سمجھے کہ بوربچے کے پنجرے سے اترنے اور دوڑنے کے انتظار میں صاحب کاوا دے رہے ہیں۔
یکایک بوربچہ پنجرے پر سے کودا اور سیدھا انگریزی قبرستان کے مشرقی کنارے کی طرف دوڑا مگر آہستہ۔یہ فاصلہ چار سوگز سے کم نہ تھا۔بوربچہ احاطے کی دیوار کے نزدیک پہنچ گیا مگر صاحب کاوے ہی میں مصروف رہے۔اس پر دو چار آدمیوں نے بڑھ کر آواز دی کہ صاحب بوربچہ دور نکلا جارہا ہے۔صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر زیادہ آواز سے چلا کر کئی آدمیوں نے کہا لیکن صاحب نے گردن پھیر کر دیکھا نہ گھوڑے کو روکا۔اس پر لوگ بھاگے ہوئے گئے۔پاس جاکر دیکھا تو جنرل صاحب کی آنکھیں بند تھیں۔لپک کر کسی نے باگ پکڑ لی۔گھوڑا رکا، ہاتھ لگا کر دیکھا تو جنرل صاحب میں کچھ باقی نہ تھا۔انہیں گھوڑے سے اتارنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ٹانگیں زین اور ہاتھ باگ پر اکڑ کر جم گئے ہیں۔چنانچہ انہیں کھینچ کر زین سے الگ کیا اور یقین ہوا کہ صاحب کو مرے ہوئے دس بارہ منٹ سے زیادہ گز چکے ہیں۔جسم میں گرمی باقی نہ تھی۔ بعد میں انگریز ڈاکٹروں نے اچھی طرح معائنہ کرکے اعلان کیا کہ قلب ساکت ہو گیا۔اب سوال یہ ہے کہ ایسا قوی شخص جس کے شکار اور شہسواری کی آج تک شہرت ہے،یکایک اس طرح اس کا قلب ٹھہرجائے،اس پر حیرت کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔جنرل صاحب نے اپنی زندگی میں132شیر مارے تھے۔
یہ حیرت انگیز واقعہ تو بوربچے کے شکار کے ضمن میں آگیا۔اس درندے کی دلیری اور بزدلی کا حال بیان کررہا تھا۔رات کے وقت اس کی دلیری کا یہ حال ہے کہ میرے خیمے میں بڑا لیمپ روشن تھا۔ باہر آگ جل رہی تھی۔میرا ایک پالتو کتا کرسی پر بیٹھا سو رہا تھا۔ کتے کی بوپربوربچہ خیمے کی قنات نیچے سے چاک کرکے اندر داخل ہو گیا۔قنات پھٹنے کی آواز سے کتا ہوشیار ہوا اور چیخ کر میرے پلنگ کی طرف جست کی۔بیچ میں میز پر لیمپ روشن تھا۔ کرسی میز سے ٹکرا کر الٹ گئی۔لیمپ چھن سے زمین پر گرا اور گل ہو گیا۔ میں گھبرا کر اٹھا تو کوئی جانور میرے پلنگ پر معلوم ہوا۔میں دہشت سے چلایا کہ ارے کوئی جلدی سے آؤ،پھر سرہانے سے ٹٹول کر میں نے ریوالور اٹھالیا مگر خیمے میں قبر کا سااندھیرا اور میں پریشان کہ کیا کروں۔اس دوران میں خلاصی چپراسی،پولیس کے پہرے والے قندیلیں لے کر آئے تو عجب سماں نظر آیا۔کتا میرے پلنگ پر بیٹھا کانپ رہا تھا اور خیمے کا حال تو آپ سن ہی چکے ہیں۔میرے ایک دوست مزمل شاہ صاحب بھی بازو کے ڈیرے سے ہنستے ہوئے پہنچے۔اس وقت سب نے دیکھا قنات کے باہر بوربچے کے پنجوں کے نشانات تھے۔پہلے اس نے زمین کھودنے کی کوشش کی تھی۔ زمین سخت پائی تو قنات چیر ڈالی۔اس کا اثر یہ ہوا کہ کوئی کتا رات کو خیمے کے باہر ٹھہرتا تھا نہ جاتا تھا اور نہایت لطف کی بات ہے کہ میرے رشتہ دار مولوی قاسم الدین صاحب نے رخصت کی درخواست پیش کردی کہ میں ان جنگلوں میں دورہ کرنے کے ناقابل ہوں۔(جاری ہے)