میں شام تک نرکے نکلنے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ کسی طرح ایک انچ بھر آگے بڑھانہ سامنے آیا۔ جب اندھیرا بڑھ گیا تو یہ سوچ کر کہ کم از کم اس بدمعاش کا پاﺅںہی توڑ دوں،نہایت باریکی اور احتیاط سے نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ فائر ہوتے ہی بوربچے نے زور سے آواز دی اور اندر کی طرف بھاگ گیا۔مادہ کود کر اس پتھر کی اوٹ میں ہو گئی۔ مجھے نظر نہ آئی، ورنہ دوسری نال کی گولی اس کی نذر ہوتی۔فائر کی آواز سن کر رسالے کے بہت سے جوان اور رنگروٹ،جو ادھر ادھر چھپے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے، میرے پاس آگئے اور پوچھا کہ ہم گوی کے نزدیک جائیں؟میں نے منع کر دیا اور کہا قندیلیں اور مشعلیں لے کر آﺅ۔ان دنوں کلب میں کٹسن لائٹ کی دو قندیلیں تھیں۔میں نے کہا وہ بھی اٹھا لاﺅ۔بعض فوجی اپنے برچھے اور باڑھ دار تلواریں لے آئے۔ اتنے میں اچھا خاصا اندھیرا چھا چکا تھا مگر ہم سب وہیں کھڑے رہے۔گوی ہم سے تیس گز دور ہو گی۔بیس منٹ کے اندر اندر یہ سب سامان اور اس کے ساتھ تقریباً سو ڈیڑھ سو جوان سائیس لڑکے جمع ہو گئے۔باڑھ کی تلواریں صرف چار تھیں۔ویسے بھی میدان جنگ کو روانہ ہونے سے پہلے رسالے کی تلواروں پر دھار نہیں دی جاتی۔دو چار بندوقچی بھی اپنی ذاتی بندوقیں لے کر آگئے۔غرض حضرت بادپاؒ کے ”پالتو“ بوربچے کے خلاف اچھی خاصی لشکر کشی ہو گئی لیکن بڈھے جمعداروں اور رسائی داروں میں سے کوئی نہ آیا۔اب میں نے گوی کے سامنے نصف دائرے کی شکل میں برچھے والوں کا حلقہ ایک دوسرے سے بالکل متصل کھڑا کرکے بنایا۔ بیچ میں میں اور بندوق سے مسلح نوجوان کھڑے ہوئے۔کٹسن لائٹ کی قندیلیں پتھروں پر اس طرح رکھ دی گئیں کہ گوی کا دہانہ دن کی طرح روشن ہو گیا۔پھر چار آدمیوں کو تلواریں اور مشعلیں دے کر گوی کی طرف بڑھایا کہ وہاں گھاس کے ٹوکرے رکھ کر ان میں آگ لگا دیں۔گھاس پر تیل چھڑ کوا دیا تھا اور ٹوکرے اس طرح رکھوائے تھے کہ منہ کھلا رہے مگر سب دھواں گوی کے اندر جائے۔یہ سامان مکمل ہونے میں رات کے نو بج گئے۔ اب حملہ شروع ہوا۔ آگ لگانے والوں نے بڑی ہمت کے ساتھ قدم بڑھایا۔ تیل سے تر گھاس سے آگ دکھا کر پیچھے ہٹ آئے اور برچھوں کی صف کے عقب میں کھڑے ہوگئے۔آگ روشن ہونے کے ایک منٹ بعد بوربچے نے ٹوکروں کے بیچ سے سرنکال کر دیکھا کہ باہر یہ کیا ہنگامہ ہے۔نیم دائرے کے بیچ میں کھڑے ہونے والوں نے اسے دیکھ کر غل مچایا کہ حضور بوربچہ آیا۔اس غل غپاڑے سے گھبرا کر بوربچے نے گردن اندر کرلی۔ میں نے ان غل مچانے والوں کو بہت ڈانٹا ڈپٹا اور انہیں سختی سے حکم دیا کہ تم صرف ہمت کرکے ملے ہوئے کھڑے رہو۔ درندے کا آنا نہ آنا میں خود دیکھوں گا۔اس کارروائی کے بعد پھر بے تابانہ اور مشتاقانہ انتظار شروع ہوا۔
دھوئیں اور تیل کی بو بہت ناگوار تھی اورادھر گوی بھی زیادہ گہری نہ تھی۔دو منٹ بعد بوربچے نے پھر سر نکالا اور گردن تک باہر آگیا۔روشنی خوب تیز تھی مگر دھوئیں کی وجہ سے گوی کا دہانہ دھند لاہو گیا۔پھر بھی دونوں سائٹس نظر آتی تھیں۔میں نے گردن اور شانے کے جوڑ کا نشانہ لے کر فائر کر دیا۔ فائر کا ہونا تھا کہ برچھوں کی لائن برہم ہو گئی۔ بھاگا تو کوئی نہیں مگر وہ ترتیب قائم نہ رہی۔بوربچے نے غالباً باہر آنے کی کوشش کی، کیونکہ اس کا سر تو وہیں زمین پر ٹک گیا لیکن جسم پر باہر آگیا اور ٹوکرے کی جلتی ہوئی گھاس کے قریب گرا۔ ایک رنگروٹ محمد خان نے مشعل بائیں ہاتھ میں لیے دائیں ہاتھ سے لپک کر بوربچے کی دم پکڑ لی۔یہ حرکت محمد خان نے اس طرح یکایک کی کہ میں پریشان ہو کر چلایا:”ابے،پرے ہٹ جااوردم چھوڑ دے۔اس میں ابھی جان باقی ہے۔“ مگر بوربچے کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ محمد خان نے ہنس کر کہا:”حضور، اب یہ حرکت کرے گایا سر اٹھائے گا تو پیروں سے کچل دوں گا۔“محمد خان کی یہ بات سن کر دوچار اور آدمیوں کو بھی حوصلہ ہوا۔ وہ آگے بڑھے اور دم پکڑ کر آگ کے پاس سے بوربچے کی لاش کھینچ لائے۔درندے نے ایک مرتبہ جبڑا کھولا۔ سب ڈر کر پیچھے بھاگے مگر یہ اس کا دم واپسیں تھا۔پھر سانس نہ آیا۔یہ تمام سین یعنی شگاف سے دوبارہ سر نکالنے سے مرنے تک بیس سکینڈ میں ختم ہو گیا۔ پہلی گولی شانے کے جوڑ سے تین انچ نیچے لگی تھی۔ اگر چھ انچ پیچھے ہوتی تو دل پر لگتی مگر اس کے جسم کا وہ حصہ نظر کے سامنے نہ تھا۔دوسری گولی دونوں شانوں اور گردن کے جوڑ پر گردن کو چھیدتی ہوئی سینے کے سامنے تک پہنچ گئی۔سینہ نرم تھا، گولی چوڑی ہو گئی، اس لیے ہڈی نہ توڑ سکی۔اس سے قبل میں ایک شیر اور ایک ریچھ شکار کر چکا تھا مگر یہ میرا پہلا بوربچہ تھا۔ اس وجہ سے اور ناتجربے کاری کے جوش میں میں نے اس قدر حماقتیں کیں کہ ان کا ظاہر کرنا ضروری ہے۔پہلی حماقت یہ کہ بوٹ پہن کر پتھر پر چڑھا، دوسری یہ کہ ایک جوان کو پہرے پر بٹھا کر خود واپس آگیا۔ جوان کے اطلاع دینے اور میرے مقام واردات پر پہنچنے میں جو وقت لگا، اس عرصے میں ممکن تھا کہ بوربچوں کا جوڑا بچھیا کو کھینچ کر گوی کے اندر لے جاتا، تیسری حماقت یہ کہ اندھیرا بڑھ جانے کے بعد جب درندے کا صر ف پنجہ دکھائی دے رہا تھا، اس پر فائر کر دیا، چوتھی یہ کہ بوربچے کے زخمی ہو جانے کے بعد رات کے وقت اسے گوی سے نکالنے کی کوشش کی۔ پانچویں انتہائی حماقت یہ کہ گوی کے منہ پر حلقہ بنایا۔ اگر بوربچہ نکل آتا تو ضرور ایک آدھ آدمی کو مار ڈالتا۔ ویسے بھی اس قدر جلد ایسے تنگ مقام پر گولی کے ٹھیک نشانے پر پڑنے کا یقین کیونکر ہو سکتا ہے؟آخری حماقت یہ کہ اپنے شوق کے جوش میں ایسے ناموزوں وقت اس قدر آدمیوں کی جانیں خطرے میں ڈال دیں۔( جاری ہے)