یہ تمام واقعہ جسے بیان کرنے میں کئی منٹ لگے ہیں بمشکل چند ثانیے کے اندر اندر رونما ہوا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا کہ بہادر و قریب آجاؤ،گلدار ماراگیا۔۔۔یہ کہہ کر میں زخمی چمار کی جانب متوجہ ہوا جو ابھی تک زمین پر پڑا اپنے ہی خون میں لوٹ رہا تھا۔ اس کے پیٹ سے فوارے کی طرح خون ابل رہا تھا۔ وہ تو یوں کہیے کہ گلدار کا پنجہ اوچھا پڑا اور چمار کے پیٹ کی کھال پوری طرح نہیں ادھڑی ورنہ اس کے زندہ بچ جانے کا کوئی امکان باقی نہ رہتا۔بعد میں غور کرنے سے اس کی دو وجوہ معلوم ہوئیں۔اوّل یہ کہ اس کا جبڑا ایک طرف سے رات کو گولی لگنے کے باعث ٹوٹ چکا تھا۔دوسری یہ کہ میں بہت جلد گلدار کے قریب پہنچا۔اس لیے اسے موقع نہ ملا اور وہ میری طرف متوجہ ہو گیا، میں نے چمار کو دلاسا دیا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اپنے آپ کو خون میں لت پت دیکھ کر حواس کھو بیٹھا اور پھر گر پڑا۔ جلد ہی سب بھگوڑے واپس آگئے۔لیکن عباسی اور خزاں سنگھ کا کوئی پتہ نہ تھا۔ میں نے فوراً زخمی چمار اور مرے ہوئے گلدار کو اٹھایا اور ٹریکٹر کی طرف چلنے لگا۔ یکایک جنگل کے اندر سے چیخوں کی آواز سنائی دی:
بچاؤ،شیر سے بچاؤ۔۔۔‘‘
میں آواز پہچان گیا کہ یہ خزاں سنگھ چلا رہا ہے۔آواز سنتے ہی سب پھر ادھر ادھر بھاگ نکلے۔ جن لوگوں نے زخمی چمار اور گلدار کو اٹھا رکھا تھا، وہ بھی انہیں زمین پر پٹخ کر خرگوشوں کی مانند چمپت ہو گئے۔ مجھے خیال آیا کہ خزاں سنگھ جب بے تحاشا جنگل کے اندر بھاگا تھا تو اس گلدار کی مادہ کہیں قریب ہی موجود ہو گی اور اسی نے خزاں کو پکڑ لیا ہے۔چیخوں کا سلسلہ جاری تھا۔ میں آواز کے رخ بھاگا کچھ فاصلے پر مجھے خزاں سنگھ دکھائی دیا،لیکن جس حالت میں تھا، وہ دیکھ کر میں ہنسی ضبط کرنے کے قابل نہ رہا۔ اس کا کرتا جھاڑی میں پھنسا ہوا تھا اور وہ بری طرح چلا رہا تھا:’’بچاؤ۔۔۔بچاؤ۔۔۔مجھے شیر نے پکڑ لیا ہے۔۔۔‘‘میں نے اس کا کرتا جھاڑی سے نکالا اور قریب قریب گھسیٹتا ہوا ٹریکٹر کی طرف لے گیا۔۔۔میری ہنسی کی آواز سن کر لوگ پھر جمع ہو چکے تھے۔جنہوں نے زخمی چمار کو زمین پر پٹخ دیا تھا۔ میں نے انہیں بہت ڈانٹا اور بیحد لعنت ملامت کی۔ چار آدمیوں نے پھر چمار کو اٹھایا اور ٹریکٹر کی طرف لے چلے۔
اس ہنگامے کی خبر گاؤں میں پھیل چکی تھی اور لوگ ٹریکٹر کی طرف آرہے تھے۔چمار اورگلدار کو ٹریکٹر میں ڈال دیا گیا۔ اطہر کا کوئی پتہ نہ تھااور مجھے چمار کو ہسپتال پہنچانے کی جلدی تھی۔ پندرہ منٹ بعد ایک افسر ایک طرف سے بھاگتا ہوا آیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ ٹریکٹر پر کھڑا ہوا سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے گلدار کو سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاؤں کی جانب بھاگ نکلا۔ اب عباسی کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ہم نے اس کو خدا کے حوالے کر کے فوراً ٹریکٹر سٹارٹ کیا اور پوری رفتار سے سنٹر ٹاؤن ہستنا پور کی طرف چلے۔ جب ہم محمود پور سے ایک یا ڈیڑھ میل آگے آچکے، تو ایک آدمی ہمیں رکنے کا اشارہ کرتا ہوا دکھائی دیا۔یہ عباسی تھا۔ گھنٹہ بھر بعد ہم ہسپتال پہنچے چمار بے ہوش پڑا تھا۔ ڈاکٹروں نے فوری توجہ کی اور خاصی جدوجہد کے بعد اسے موت کے منہ سے بچا لیا، لیکن اگلے روز ایک دوسری مصیبت آن گھیرا۔گلدار کو مارے جانے کی خبر فارسٹ کے اعلیٰ افسروں تک پہنچ گئی اور رینجرز نے ہمارے خلاف رپورٹ لکھا دی، کیونکہ ہم نے پرمٹ کے بغیر ریزروفارسٹ سے گلدار مارا تھا۔ مقدمہ چلا اور ہم لوگوں کو جرمانے کی سزا ہوئی، لکین جج نے دیکھتے ہوئے کہ میں نے کس طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسرے کی جانب بچائی تھی، جرمانہ صرف500روپے کیا، تاہم یہ جرمانہ گلدار کو دیکھتے ہوئے کچھ زیادہ نہ تھا۔ اسے ماپا تو سات فٹ گیارہ انچ نکلا۔۔۔اور یہ مرے اب تک کے شکار کیے ہوئے29گلداروں میں سب سے بڑا ثابت ہوا۔اسی خوشی نے جرمانے کا صدمہ بھلا دیا۔ اب اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اس گلدار کا قصہ یاد آتا ہے،تو بدن میں جھر جھری سی دوڑنے لگتی ہے۔
****
1887ء میں ہندوستان کے انگریزی اخباروں،بالخصوص ٹائمز آف انڈیا میں یہ دلچسپ بحث ہفتوں اور مہینوں تک چھڑی رہی کہ لیوپرڈ اور پینتھر میں کیا فرق ہے؟مضامین پڑھنے کے بعد جب کبھی کسی شکاری سے میری ملاقات ہوئی، میں نے اس کے بارے میں ضرور دریافت کیا کہ لیوپرڈ اور پینتھر میں کیا فرق ہے مگر کوئی بھی ان درندوں کا آپس میں فرق مجھے نہ سمجھا سکا۔1966ء میں پھر شکاری مضمون نگاروں میں اس بحث کا سلسلہ شروع ہوا میں اس زمانے میں ریاست حیدر آباد دکن کے جنرل نواب سر افسر الملک کی خدمت میں اردلی افسر تھا۔جنرل صاحب مرحوم کی انگریزی اور ذاتی خط و کتابت کا کام، نیز اخباروں کے مضامین کا انتخاب اور انہیں پڑھ کر سنانا بھی میرے فرائض میں داخل تھا۔ جنرل صاحب نے پرانے اخبارات کے تراشوں کا ایک ڈھیر مجھے عنایت فرما کر پڑھنے کاحکم دیا۔ان کے پڑھنے میں دس بارہ دن لگے اور آخیر نتیجہ جس پر دماغ سوزی کے بعد میں پہنچ سکا، یہ تھا کہ پینتھر اور لیوپرڈ میں سوائے مقامی آب و ہوا اور گردوپیش کے کوئی بین فرق نہیں ہے۔ایک ہی درندے کے دو نام ہیں۔
نینی تال اورگردوپیش کے پہاڑی باشندے اسے بگھیرا کہتے ہیں۔چیتا سون چیتا، باگھ، اونارا اور تیندوا اس کے ہندی نام ہیں۔فارسی میں پلنگ، بلوچی میں ڈیہو، کشمیر میں سوہ اور تیندوا، بندھیل کھنڈ میں گوربچہ یا بورچہ کہتے ہیں۔دکن میں اسے بوربچہ کہا جاتا ہے۔یہ درندہ گھریلو بلی سے تین گنا بڑا اور شیر سے کسی قدر چھوٹا ہوتا ہے۔ویسے اس کے قدوقامت کا کوئی معیار مقرر نہیں۔شکاریوں نے مختلف ماپ اپنی تصانیف میں درج کیے ہیں۔1896ء کی ابتداء سے1931ء تک مجھے متواتر بور بچوں سے واسطہ رہا ہے۔آصف نگر کے شمال میں ٹتی پہاڑ سے شروع کرکے ورنگل، کریم نگر،عادل آباد، عثمان آباد، بیڑ تعلقہ ہنگولی، ٹانڈوران سب مقامات پر میں نے بوربچے کثرت سے دیکھے اور کہیں کہیں شکار بھی کیے ہیں مگر میں چھتیس سال سے اس طویل تجربے کے بعد بھی بور بچے کی قدوقامت کا کوئی معیار مقرر نہ کر سکا۔ میں نے آصف نگر کے پہاڑوں میں حضرت بادپا رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ سے منسوب سب سے بڑا بوربچہ مارا ہے۔یہ سات فٹ پانچ انچ لمبا تھا۔ بعض چھوٹی شیرنیاں بھی اس کے برابر ہوتی ہیں۔دیکھنے میں یہ بوربچہ بھی شیر سے کم زبردست نہ معلوم ہوتا تھا۔اکثر شکاریوں کی کتابوں میں اس سے بھی بڑے بور بچوں کا ذکر ہے مگر شاید ہی کوئی چار یا پانچ انچ اس سے بڑا ہو۔ حضرت بادپاؒ کی درگاہ سے منسوب بوربچے کا قدوقامت اتنا بڑا اس لیے تھا اعتقاد کی بنا پر کوئی اسے ہلاک کرنے کی جسارت نہ کرتا۔ تقریباً پندرہ برس سے یہ ان پہاڑوں میں رہتا آیا تھا۔ ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے فوجی رسالے کی ایک آدھ بکری لے اڑتا۔اسے کسی کا خوف تھا نہ کھانے کے لیے بکریوں کی کمی، چنانچہ خوب فربہ ہونا اور اعضا کا اچھی طرح نشوونما پانا ان حالات کا لازمی نتیجہ تھا۔(جاری ہے)