گوالوں کو اپنا دودھ رائیگاں جاتا نظر آیا۔انہوں نے نہ جانے ہم سے کیا کیا امیدیں باندھ لی تھیں کہ ہم اسی وقت جنگل میں گھس جائیں گے اور گل دار کو مار کر ان کے سامنے ڈال دیں گے۔ہماری جانب سے انکار سن کر انہوں نے ٹھنڈی سانسیں بھریں اور کہنے لگے:
’’جب تک آپ دوبارہ آئیں،کیا خبر کتنے جانور اس گلدار کی بھینٹ چڑھ جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو چھوڑ کر وہ آدمیوں کو ہڑپ کرنے پر اتر آئے۔‘‘گوالوں کی اس بات نے میرے جسم میں حرارت پیدا کر دی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ حرارت خود بخود سرد پڑگئی۔میں نے احساس کیا کہ موقع بے ڈھب ہے۔میرے ساتھ تین نو عمر لڑکے ہیں۔اگر خدانخواستہ ان میں سے کسی کو کچھ ہو گیا،تو میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا، یقین مانیے اگر یہ بچے ساتھ نہ ہوتے تو میں گلدار سے دو دو ہاتھ کرنے کا ارادہ کر لیتا۔مغرب کے بعد ہم کچھ دیر تیتر مارتے رہے۔جب خاصا اندھیرا ہو گیا تب فارم کی طرف پلٹے۔ٹریکٹر محمود پور کے ڈاک بنگلے کے قریب پہنچا تو اس کی روشنی اچانک ایک آوارہ بیل پر پڑی جو سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ اس کے فوراً بعد نظر ایک درندے پر پڑی جو بیل پر جست کرنے ہی والا تھا۔ نین سنگھ نے بھی اسے دیکھا اور بول پڑا:
’’خان صاحب، یہ شیر ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی لڑکوں نے اپنی اپنی بندوقیں سیدھی کرلیں۔میں نے ہلکی آواز میں انہیں ڈانٹا:
’’خبردار!بندوق نہ چلانا، یہ شیر ہے۔‘‘
لیکن اتنی دیر میں ٹریکٹر نزدیک پہنچ گیا تھا۔ بیل اور درندہ دونوں روشنی میں تھے۔۔۔مجھے درندے کی آنکھیں اور مونچھیں اور اس کے اگلے دو پاؤں صاف نظر آرہے تھے اور دماغ میں گوالے کا کہا ہوا جملہ گونج رہا تھا کہ گلداردو بیل مار چکا ہے اور کیا پتہ اس کے بعد انسانوں کی باری آجائے۔میں نے نین سنگھ سے کہا کہ ٹریکٹر روک دو۔اتنے میں گلدار روشنی سے گھبرا کر راستہ چھوڑ چکا تھا۔ اور جھاڑیاں ہل ہل کر بتا رہی تھیں کہ وہ آہستہ آہستہ ان میں حرکت کررہا ہے۔میں نے اللہ کا نام لیا اور جھاڑیوں کے حرکت کے اندازے سے فائر جھونک دیا۔ درندے کی لرزہ خیز چیخ سے جنگل گونج اٹھا، پھر فوراً سناٹا چھا گیا۔ہم سب اپنی اپنی جگہ بے حس و حرکت اور سہمے بیٹھے تھے،تاہم اتنا احساس ضرور تھا کہ فائر خالی نہیں گیا۔یہ محض احساس تھا یقین نہیں تھا۔ آخر میں نے سکوت توڑتے ہوئے کہا:
’’گولی گلدار کے لگی ہے۔‘‘
میرے ساتھیوں نے کہا:
’’خان صاحب!یقین سے نہیں کہا جا سکتا ۔‘‘
میں نے یہ بات ماننے ہوئے کہا:’’ٹریکٹر جھاڑیوں کی طرف موڑو۔‘‘
ایسا ہی کیا گیا۔ٹریکٹر کی ہیڈ لائٹ ٹھیک اس جگہ پڑ رہی تھی جہاں کا نشانہ میں نے لیا تھا، وہ جگہ اب بالکل خالی تھی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ نشانہ خالی گیا یا گلدار زخمی ہو کر آگے بڑھ چکا تھا۔ سنسار، اطہر ،خالد اور نین سنگھ ٹریکٹر سے اتر کر اس کی روشنی میں اس مقام پر خون تلاش کررہے تھے۔فوراً مجھے اس حماقت کا احاس ہوا اور میں نے انہیں ڈانٹ کر واپس ٹرالی میں آنے کی ہدایت کی۔خدا کا شکر ہے مجھے جلد ہی اس غلطی کا احساس ہوا، ورنہ عین ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی ایک لقمہ اجل بن جاتا۔آپ کو بھی اس کا احساس آگ چل کر ہو گا۔
دیر تک بحث مباحثے کے بعد طے ہوا کہ رات محمود پور کے ڈاک بنگلے میں کاٹی جائے۔ہری چند ہمارے ساتھ تھا اور محمود پور کے فارسٹ آفیسر کا کسی زمانے میں ساتھی رہ چکا تھا۔اس نے بڑی خوشی سے ہمیں ڈاک بنگلے میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔وہ رات ہم سب نے کچھ سوکر، کچھ جاگ کر گزاری اور منہ اندھیرے ہی میں نے اپنے لڑکوں کے ساتھ نماز فجر ادا کی۔پھر سنسار سنگھ، خالد خزاں اور ہری چند کو ٹریکٹر پر بھیج دیا، کیونکہ یہ شکار کا بہترین وقت ہوتا ہے۔اس وقت پرندے اور بعض دوسرے جانور رات بھر کھیتوں میں پھرنے کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف لوٹتے ہیں اور انہیں آسانی سے شکار کیا جا سکتا ہے۔یہ لوگ ادھر گئے،ادھر میں نے اطہر،نین سنگھ اور عباسی کو ساتھ لیا اور خون کے نشان دیکھنے کی غرض سے چل پڑا۔میرا خیال تھا کہ صرف خون دیکھنے اور یہ یقین ہو جانے کے بعد کہ گلدار زخمی ہے،واپس چلے آئیں گے۔
میرا اپنا اور دوسرے شکاریوں کا تجربہ یہ ہے کہ شیر زخمی ہونے کے بعد کم از کم ڈیڑھ دو میل چل کر رکتاہے،اس لیے ہم کوئی خاص احتیاط نہیں برت رہے تھے۔صرف اطہر کے ہاتھ میں بندوق تھی اور عباسی کے ہاتھ میں لاٹھی۔ نین سنگھ خالی تھا اور میں اس کے ساتھ ساتھ واک کرتا پیدل چل رہا تھا۔
رات جس جگہ میں نے جھاڑیوں میں فائر کیا تھا، وہاں سے پانچ گز تک خون کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس لیے تینوں نے کہا کہ نشانہ خالی گیا،مگر میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ نشانہ کارگر ہوا ہے۔ہم کچھ اور آگے بڑھے۔یکایک میرے حلق سے مسرت آمیز چیخ نکلی۔ اس چیخ کا باعث تھا ایک پتا، جس پر خون کی ایک بوند جم چکی تھی۔میرا خیال درست نکلا۔گلدار زخمی ہو چکا تھا۔کچھ اور آگے بڑھنے پر ہمیں خون کی جمی ہوئی بوندوں کا ایک سلسلہ دکھائی دیا۔جس کا رخ بیلیا کی طرف تھا اور بیلیا اس مقام سے کوئی دو میل دور ہو گی۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا:’’میرا اندازہ ہے کہ گلدار بیلیا میں جاکر رکے گا۔‘‘
انہوں نے بھی میرے خیال کی تائید کی۔اب ہم خون کی یہ بوندیں دیکھتے بھالتے کوئی سوگز آگے نکل آئے تھے۔ عباسی اور نین سنگھ مجھ سے اور اطہر سے آگے آگے چل رہے تھے۔نین سنگھ نے مجھے آواز دے کر کہا:
’’خان صاحب، یہاں آکر دیکھیے، کتنا خون پڑا ہے:‘‘
ابھی وہ اپنا جملہ مکمل بھی نہیں کر پایا تھا کہ شیر کی ہولناک گرج سے جنگل لرز گیا۔ اس گرج کے ساتھ عباسی اور نین سنگھ کی چیخیں بھی شامل ہو چکی تھیں۔وہ مڑ کر بے تحاشا بھاگے، لیکن مصیبت کے مارے ایک دوسرے سے ٹکرا کر ڈھیر ہو گئے۔ میرے ہاتھ سے مسواک چھوٹ گئی اور میں نے لپک کر اطہر کے ہاتھ سے بندوق چھین لی۔(جاری ہے)