یہی سال تھا جب میں نے اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کیا اور طے کرلیا کہ مجھے ایک بڑا شکاری بننا ہے۔یہ ارادہ ایک مہم کے بعد کیا گیا جس کا آغاز بڑے طریق پر ہوا۔ میرے بڑے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب اپنی بارہ بور بندوق سمیت لودھی دھانہ سے کہیں گئے ہوئے تھے۔یہ بندوق وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ مجھے اجازت نہ تھی کہ اسے ہاتھ بھی لگاؤں۔۔۔ وجہ یہی کہ وہ نیک نیتی سے چاہتے تھے کہ میں شکاری نہ بنوں ا ور اپنی زندگی برباد نہ کر ڈالوں۔ایک روز دوپہر کو ایک بجے کے لگ بھگ جینوا گوالی گاؤں کے چند آدمی بد حواسی کی تصویر بنے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ چیتے نے ان کا ایک بچھڑا مار ڈالا ہے اور بچھڑے کی لاش کو گھسیٹ کر گاؤں سے کچھ فاصلے پر لے گیا ہے۔
یہ لوگ دراصل میرے بڑے بھائی سے چیتے کی شکایت کرنے آئے تھے کہ بھائی صاحب بھی اچھے شکاری تھے اور بارہ بور بندوق کے مالک۔۔۔لیکن بھائی صاحب اس وقت موجود نہ تھے،لہٰذا قرعہ فال میرے نام نکل آیا۔ میں نے ان لوگوں سے عذر کیا کہ میں بھلا کیا کر سکتا ہوں؟چیتے سے مقابلہ کرنے کے لیے غلیل اور تیر کمان کافی نہیں ہیں۔یہاں تو بندوق یا رائفل کی ضرورت ہے اور میری بدقسمتی کہ میں ان ہتھیاروں سے ابھی تک محروم چلا آتا ہوں۔خود اتنا مقدور نہیں کہ بندوق خرید سکوں۔بھائی صاحب ہوتے تو وہ اپنی بندوق کو کام میں لاکر چیتے کو مارسکتے تھے۔ لوگ لوگ ان کی واپسی کا انتظار کرلو۔ یہ سن کر وہ لوگ سخت پریشان ہوئے اور کہنے لگے:
’’نہ جانے آپ کے بھائی صاحب کب واپس آئیں،ادھر چیتے کے منہ کو بچھڑے کا خون لگ گیا ہے،اگر اسے روکا نہ گیا تو ایک ایک کرکے ہمارے تمام مویشیوں کو ہڑپ کر جائے گا اور پھر ہو سکتا ہے انسانوں کی باری بھی آجائے،لہٰذا ہر قیمت پر چیتے کا قصہ پاک کرنا ضروری ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ تنہا آدمی کرہی کیا سکتا ہے۔تم لوگ چاہتے ہو کہ میں چیتے کا شکار ہو جاؤں؟‘‘
بہت سوچ بچار کے بعد آخر یہ راہ نکالی گئی کہ میں گاؤں کے نمبردار کی مزل لوڈنگ بندوق مستعارلوں اور اس سے چیتے کو ہلاک کرنے کی کوشش کروں۔مزل لوڈنگ بندوق بلاشبہ نہایت کارآمد ہتھیار ہے،لیکن اسے بھرنا بجائے خود ایک فن ہے جس میں میں اس وقت قطعی اناڑی تھا۔ بہرحال اللہ کا نام لے کر میں نے بندوق لوڈ کی اور ان لوگوں کے ساتھ ہی جینوا گوالی کی طرف روانہ ہوا۔ لودھی دھانہ سے یہ گاؤں صرف دو میل دور تھا۔
آپ اس وقت میرے جذبات و احساسات اور جوش و خروش کا شاید احساس نہ کر سکیں کہ میں بندوق ہاتھ میں لیے بنفس نفیس کسی سرپرست کی رہنمائی کے بغیر ایک موذی چیتے سے دو دو ہاتھ کرنے جارہا تھا۔ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میرے ہوش و حواس اور اوسان معمول کے مطابق کام کررہے تھے تو یہ دعویٰ غلط ہو گا۔ میرے دل کی دھڑکن اسی رفتار سے تیز ہو رہی تھی جس رفتار سے میں جائے واردات کے نزدیک ہوتا جارہا تھا!تاہم میں نے کوشش کرکے اس بدحواسی اور دل کی بڑھتی ہوئی دھڑکن پر قابو پایا اور جنیوا گوالی کے نواح میں پہنچ کر بچھڑے کی لاش دیکھی جسے چیتے نے ہلاک کیا تھا، لیکن اسے ہڑپ کرنے کا موقع کسی نامعلوم سبب سے نہیں ملا تھا۔ میں جانتا تھا کہ چیتا قریب ہی کہیں موجود ہو گا اور شکار پر نگاہیں جمی ہوں گی۔
شام کے سائے تیزی سے اردگرد پھیل رہے تھے۔فضا میں اچھا خاصا حبس تھا اور جنگل پر غیر معمولی خاموشی طاری تھی۔پرندوں نے اپنے ٹھکانوں پر ابھی لوٹنا شروع نہیں کیا تھا۔ میں نے طے کیا کہ چیتے کے انتظار میں مچان باندھ کر اس پر بٹھنا فی الحال دشوار بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔۔۔مچان باندھنے کا موقع نہ تھا اور نہ اتنا وقت کہ گاؤں سے مچان باندھنے کا سامان وغیرہ لایا جاتا۔میں نے ایک درخت پر چڑھ کر چیتے سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ زمین سے کوئی پندرہ فٹ کی بلندی پر میں نے اپنا ٹھکانہ بنایا اور سمجھ لیا کہ چیتے کے انتظار میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ یہ یقینی تھا کہ چیتا آس پاس ہی موجود ہے۔اب اسے میری ناتجربہ کاری کہہ لیجیے یا نادانی کہ میں اس خیال میں مبتلا تھا کہ جس طرح انسان اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا، اس طرح جانور بھی اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتے،حالانکہ اب سوچتا ہوں،تو حیرت ہوتی ہے کہ اس رات چیتے نے مجھے زندہ کیوں چھوڑ دیا تھا، کیونکہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس نے گھپ اندھیرے کے باوجود نہ صرف مجھے اچھی طرح دیکھ لیا، بلکہ حملہ کرنے کے لیے دبے پاؤں درخت پر چڑھنے کی کوشش بھی کی تھی۔
چیتے کے بارے میں مختصر طور پر میں یہاں چند ضروری باتیں بتاتا چلوں تاکہ آپ کو اس مکار درندے کی ان حرکتوں کا علم ہو سکے جو رات کی تاریکی میں اس سے سرزد ہوتی ہیں۔تمام جنگلی جانوروں میں چیتا سب سے زیادہ تیز، پھرتیلا اور عیار جانور ہے۔شیر درخت پر نہیں چڑھ سکتا جبکہ چیتا بلی کی طرح آسانی سے درخت پر چڑھ جاتا ہے۔زخمی ہونے کے بعد چیتے کے غیض و غضب اور اشتعال کی انتہا نہیں رہتی۔وہ انسانوں کے لیے سخت خطرناک بن جاتا ہے۔شکار کو ہلاک کرکے پہلے پیٹ چاک کرتا ہے،آنتیں ادھر ادھر بکھیرنا ہے اور پھر پیٹ کا گوشت ہڑپ کرتا ہے۔یہ درندہ اپنی ایک عجیب و غریب فطری حس کے باعث شکاری کی پیش بندی اور منصوبے سے آگاہ ہو جاتا ہے اور آسانی سے قابو میں نہیں آتا۔ اس کی یہ عادت بھی ہے کہ شکار کو ہلاک کرکے اونچے درختوں کی گھنی شاخوں میں چھپا رہتا ہے اور کئی کئی دن مزے لے لے کر کھاتا ہے۔اسے فریب دینے کے لیے درخت کے ساتھ اگر آپ بکری یا بچھڑے کو باندھیں گے، تو ادھر سے کبھی نہیں گزرے گا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مچان پر شکاری بندوق لیے بیٹھا ہے۔
چیتے کی ایک خطرناک خصوصیت یہ ہے کہ کبھی سامنے آکر وار نہیں کرتا۔ ہمیشہ پیچھے سے دشمن پر حملہ کرتا ہے۔شیر کے برعکس شکاری پر چیتے کی دہشت زیادہ سوار رہتی ہے کہ اس درندے کے سامنے مچان کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ شکاری کی بے خبری میں وہ مچان پر آجاتا ہے اور ایک ہی پنجے میں گردن توڑ ڈالتا ہے۔
چیتے کی ان خصوصیات کا مجھے اس وقت مطلق علم نہ تھا۔ جب میں مزل لوڈنگ بندوق سنبھالے جنیوا گوالی گاؤں کے ایک درخت کی شاخوں میں چھپا بیٹھا تھا۔ یہ خصوصیات تو مجھے بہت بعد میں طویل شکاری زندگی بسر کرنے کے بعد معلوم ہوئیں اور ان سے میں نے بہت فائدہ بھی اٹھایا جس کا تذکرہ انشاء اللہ آئندہ کروں گا۔(جاری ہے )