حماقتوں کا ٹیسٹ میچ
جاوید چوہدری بدھ 25 دسمبر 2019
دریا پوٹامک واشنگٹن میں بہتا ہے‘ آپ اگر کبھی واشنگٹن جائیں اور دریا کے کنارے سیر کریں تو آپ کو تاحد نظر چیری کے درخت ملیں گے‘ یہ درخت بہار کے موسم میں پھول دیتے ہیں اور کمال کر دیتے ہیں‘ آپ کو اپنی نگاہوں کے آخری کنارے تک پھول ہی پھول دکھائی دیں گے‘ بہار میں دریا کے کنارے بھی مہک اٹھتے ہیں‘ چیری کے پھول اور مہک کا یہ دور ’’چیری بلاسم‘‘ کہلاتا ہے‘ لاکھوں سیاح ہر سال یہ بلاسم دیکھنے واشنگٹن آتے ہیں۔
یہ دریا کے کنارے واک کرتے ہیں اور پھولوں کی مہک سانسوں کی مالا میں پروتے ہیں‘یہ درخت اور یہ پھول بظاہر عام دکھائی دیتے ہیںلیکن ان کے پیچھے سفارت کاری کی ایک انتہائی دل چسپ کہانی ہے‘ کہانی کی جڑیں دوسری جنگ عظیم میں دفن ہیں‘ امریکا نے 1945 میں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے‘ یہ انسانی تاریخ کا خوف ناک ترین واقعہ تھا‘ دو بم گرے اور آن واحد میں اڑھائی لاکھ لوگ ہلاک اور تین لاکھ زخمی ہو گئے‘ جاپان نے ایٹمی حملوں کے فوراً بعد سرینڈر کر دیا یوں امریکا جنگ جیت گیا۔
جاپانیوں نے بعد ازاں امریکا سے ایٹم بموں کا خوب صورت بدلا لیا‘ جاپانی بادشاہ ہیروہیٹونے تاوان جنگ میں امریکا کو چیری کے ہزاروں پودے گفٹ کر دیے‘ جاپان کے ماہرین واشنگٹن آئے اور دریا پوٹامک کے کنارے پودے لگا دیے‘ جاپانی شاہ کا کہنا تھا دنیا میں کسی جنگ کا اس سے زیادہ اچھا بدلا نہیں ہو سکتا‘ ہمارے چیری کے پودے بہار کے ہر موسم میں بلاسم کریں گے‘ دنیا جہاں سے لوگ آ کر یہ پودے اور یہ پھول دیکھیں گے‘ ان کی بیک گراؤنڈ پوچھیں گے اور امریکی شرمندہ ہو کر سیاحوں کو بتائیں گے جاپان نے یہ پودے ایٹمی جنگ کے بعد امریکا کو گفٹ کیے تھے یوں ہمارے پھول قیامت تک امریکا کے ایٹم بم کا مقابلہ کریں گے۔
یہ سفارت کاری کی باریکی اور نفاست کا ایک واقعہ ہے اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے ملک ملکوں سے بدلا بھی انتہائی سوچ سمجھ کر لیتے ہیں‘ آپ سفارتی اخلاقیات کی باریکی ملاحظہ کیجیے ‘دنیا کے کسی ملک کا کوئی سربراہ جب دوسرے ملک کے سرکاری وزٹ پر جاتا ہے تو اس ملک کا صدر یا وزیراعظم بھی جوابی وزٹ کرتا ہے‘ فرانس اور امریکا کے درمیان60ء کی دہائی میں اختلافات پیدا ہو گئے‘ جان ایف کینیڈی امریکا اور چارس ڈیگال فرانس کے صدر تھے‘ جان ایف کینیڈی تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے اچانک فرانس کے دورے پر آ گیا۔
ڈیگال اسے ریسیو کرنے پر مجبور ہو گیا‘ کینیڈی واپس جانے لگا تو اس نے ڈیگال سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ’’مسٹر پریذیڈنٹ اب آپ کو بھی مجھے ملنے امریکا آنا پڑے گا‘‘ ڈیگال نے مسکرا کر جواب دیا ’’ ضرور آؤں گا لیکن تاریخ کا فیصلہ میں خود کروں گا‘‘ چارلس ڈیگال نے اپنا وعدہ جان ایف کینیڈی کے جنازے پرپورا کیا‘ آپ دیکھ لیں سفارت کاری کتنا باریک کام ہوتا ہے‘ ملکوں کے ملکوں سے تعلقات بنتے بنتے صدیاں لگ جاتی ہیں‘ سفارت کار ایک ایک اینٹ رکھ کر دیوار کھڑی کرتے ہیں اور پھر حکومتیں ان دیواروں پر محبت اور تعلقات کے گنبد بناتی ہیں لیکن پھر غلط فہمی کا کوئی ایک ہاتھی آتا ہے اور تعلقات کا پورا قلعہ مسمار کر دیتا ہے‘ وزیراعظم عمران خان نے بھی یہی کیا‘ انھوں نے ایک ٹھڈے سے پانچ ملکوں کے ساتھ پاکستان کے 72 سال کے تعلقات خراب کر دیے۔
یہ واقعہ پاکستان کی سفارتی تاریخ میں بارہ اکیس بن گیا (بارہ کا مطلب دسمبر اور 21 تاریخ ہے) اور یہ دہائیوں تک یاد رکھا جائے گا‘ یہ کیا واقعہ تھا میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو ذرا سی بیک گراؤنڈ بتاتا چلوں‘ بھارت نے 5 اگست 2019 کو آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا دیا‘ ہمارا خیال تھا برادر اسلامی ملک اور او آئی سی ہماری مدد کرے گی لیکن ہمیں کسی طرف سے ہمدردی کے دو لفظ تک نہ ملے‘ دنیا میں صرف تین ملکوں نے کھل کر ہمارا ساتھ دیا اور وہ ملک تھے ایران‘ ترکی اور ملائیشیا ‘ وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے21 ستمبر کو نیویارک گئے‘ ان کی 25ستمبر کو ترک وزیراعظم طیب اردگان اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے مشترکہ ملاقات ہوئی‘ عمران خان نے دونوں کو مشورہ دیا ہمیں مل کر اسلامی دنیا کا نیا بلاک بنانا چاہیے‘ ہمیں مشترکہ میڈیا‘ بینک‘ کرنسی اور سفارتی پالیسی بھی طے کرنی چاہیے۔
عمران خان کی تجویز تھی مہاتیر محمد اس وقت اسلامی دنیا کے سینئر ترین حکمران ہیں چناں چہ یہ کام انھیں کرنا چاہیے‘ طیب اردگان اور مہاتیر محمد نے اتفاق کر لیا‘ مہاتیر نے 2014 میں کوالالمپور سمٹ کے نام سے ایک فورم بنایا تھا‘ یہ چار سال سے اس فورم کے تحت عالمی کانفرنس کرا رہے تھے‘ مہاتیر محمد نے اس فورم کا سائز بڑھانے اور اس کے ذریعے نئے اسلامی ایجنڈے کے اعلان کا وعدہ کر لیا‘ وزیراعظم عمران خان نے کانفرنس میں شرکت اور اسلامی ملکوں کو قائل کرنے کا وعدہ کر لیا۔
وزیراعظم نے یہ ’’اینی شیٹو‘‘ لیتے وقت وزارت خارجہ سے کسی قسم کا مشورہ نہیں کیا لیکن وزارت اس کے باوجود وزیراعظم کو روکتی رہ گئی‘وزارت خارجہ کا کہنا تھا سعودی عرب کی طرف سے ردعمل آئے گا اور ہم اس ردعمل کو برداشت نہیں کر سکیں گے مگر وزیراعظم کا جواب تھا ’’میں ولی عہد محمد بن سلمان سے خود بات کر لوں گا‘‘ بہرحال کانفرنس کی تیاریاں شروع ہو گئیں اور سعودی عرب کے پرانے حریف ایران اور ترکی بھی کانفرنس کا حصہ بن گئے اور نیا مخالف قطر بھی‘ ہم نے بھی دھوم دھام کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کا اعلان کر دیا۔
آپ ہماری عقل دیکھیے ہمارے وزیراعظم یہ تک نہیں جانتے تھے ترکی اور سعودی عرب میں ہزار سال اور ایران اور سعودی عرب میں 14 سو سال کی دوریاں ہیں‘ ترکی چارسو سال حجاز پر قابض رہا جب کہ عربوں اور ایران کے درمیان حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں تنازع شروع ہو گیا تھا چناں چہ یہ تینوں ایک جگہ نہیں بیٹھ سکیں گے لیکن ہم نے کیوں کہ ورلڈ کپ جیتا تھا لہٰذا ہم سفارت کاری کے بھی چیمپیئن ہیں‘ ہم پوری دنیا کے سربراہوں کو جانتے ہیں چناں چہ ہم وکٹ پر ڈٹ گئے یہاں تک کہ سعودی عرب کی طرف سے ری ایکشن آ گیا‘ ہمیں پوچھ لیا گیا ’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘ ہم پریشان ہو گئے۔
ہم نے11 دسمبر کو شاہ محمود قریشی کوریاض بھجوا دیا‘ سعودی حکومت نے ہمارے وزیر خارجہ کو 9 گھنٹے باہر انتظار کروایا‘ یہ جب تھک کر کھانے کی میز پر بیٹھ گئے تو انھیں ’’فوراً آ جائیں‘‘ کا حکم دے دیا گیا اور یہ کھانا ادھورا چھوڑ کر ملاقات کے لیے دوڑ پڑے‘ وزیر خارجہ کوبتا دیا گیا ’’آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالفوں کے ساتھ ‘‘ وزیر خارجہ پیغام لے کر واپس آ گئے لیکن وزیراعظم کو اس واضح پیغام کے باوجود اپنی کمیونی کیشن سکل پر بہت ناز تھا‘ یہ ایک نیا منصوبہ لے کر14 دسمبر کو سعودی عرب پہنچ گئے۔
ہم نے ولی عہد کو کوالالمپور سمٹ کی قیادت کی پیش کش کر دی‘ ہم نے ان کو بتایا مشترکہ اعلامیہ بھی آپ کے نام سے جاری ہو گا اور یہ فورم بھی آپ کا ہو گا‘ ہم نے مہاتیر محمد کو بھی تیار کر لیا یہ سعودی عرب جائیں اور اپنے ہاتھ سے ولی عہد محمد بن سلمان کو دعوت نامہ دیں‘ ملائیشیا نے سعودی عرب سے مہاتیر محمد کے وزٹ کی درخواست کی لیکن سعودی حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا‘ بہرحال قصہ مختصر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات ہوئی اور ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچا‘ ہم کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیں اور ہم نے یہ اعلان کر دیا۔
ہم اگر یہ اعلان نہ کرتے تو ہمیں سعودی عرب کے چھ ارب ڈالر (تین ارب ڈالر نقد اور تین ارب ڈالرکا ادھار تیل)بھی واپس کرنا پڑتے اور سعودی عرب میں کام کرنے والے ہمارے 41لاکھ پاکستانی بھی گھر واپس آ جاتے لہٰذا ہمارے پاس کوئی سیکنڈآپشن نہیں تھا‘ ہم نے بہرحال سعودی عرب کی ’’درخواست‘‘ مان لی اور کوالالمپور سمٹ سے یوٹرن لے لیا‘ ہمارا یوٹرن اگر یہاں تک محدود رہتا تو بھی شاید ’’ڈیمیج کنٹرول‘‘ ہو جاتا مگر ہم نے اس کے بعد اس سے بڑی حماقت کر دی‘ وزیراعظم عمران خان 17 دسمبرکو جنیوا میں طیب اردگان سے ملے اور ان کو سعودی ولی عہد سے اپنے ڈائیلاگ کی تفصیل بتا دی ‘ طیب اردگان نے 20 دسمبر کو پوری دنیا کو بتا دیا سعودی عرب نے پاکستان کو 41 لاکھ ورکرز اور قرض واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔
اس انکشاف نے سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات خراب کر دیے لہٰذا آپ کمال دیکھیے ہم نے مہاتیر محمد کو او آئی سی کے مقابلے میں کھڑا کر کے سعودی عرب سے تعلقات بگاڑ لیے‘ ہم نے کوالالمپور سمٹ سے بھاگ کر مہاتیر محمد اور طیب اردگان کے ساتھ تعلقات خراب کر لیے‘ ہم نے ایران اور قطر کو بھی مزید پھنسا دیا اور ہم نے آخر میں ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ اپنا ڈائیلاگ طیب اردگان کے ساتھ شیئر کر کے سعودی شاہی خاندان کو بھی اپنے آپ سے دور کر دیا چناں چہ ہم نے ایک بال سے ہی اپنی ساری وکٹیں اڑا دیں۔
ہمیں کوئلوں کی دلالی میں کیا ملا؟ ہم نے 94 سال کے بزرگ مہاتیر محمد کو اسلامی دنیا میں تنہا کر دیا‘ ہم نے ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات مزید خراب کر دیے‘ ہم ایران اور قطر کو بھی سعودی عرب سے مزید دور لے گئے اور ہم آخر میں خود بھی اپنے دیرینہ دوستوں سے محروم ہو گئے‘ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ملا‘ آخر ہماری حماقتوں کا یہ ٹیسٹ میچ کب ختم ہو گا‘ ہم کہاں جا کر رکیں گے؟ ہمارے سامنے سمندر اور پیچھے کھائی دونوں آ چکے ہیں‘ کیا ہم ان میں کود کر دم لیں گے! جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں اپنے دشمن امریکا کو چیری کے پودے دیے اور ہم اپنے دوستوں کے صحن میںکیکر بو رہے ہیں‘ ہم آخر چاہتے کیا ہیں‘کیا ہم خود کو پاگل ثابت کرنا چاہتے ہیں؟