*صحافت کا بدلتا چہرہ*
تحریر: بشریٰ جبیں کالم نگار
صحافت (Journalism)، کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔ اداروں جیسے حکومتی اداروں اور تجارت کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے علاوہ صحافت کسی بھی معاشرے کے کلچر کو بھی اجاگر کرتی ہے
صحافت کسی بھی دور میں معاشرے کے مختلف شعبوں سے متعلق خبروں اور معلومات کو جمع کرنے، تخلیق کرنے، پیش کرنے اور پھیلانے کے عمل کا نام ہے. اس میں اخبارات، ٹیلی ویژن، ریڈیو، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز شامل ہیں.
اس میں عوام میں شعور بیدار کرنا، نظریات کی ترجمانی کرنا، اور سماجی و سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے قوم کو متحد کرنا شامل ہے.
صحافت کو ایک سماجی خدمت اور ایک سماجی ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو معاشرے کی اچھائیوں اور برائیوں کو عوام کے سامنے لاتا ہے. صحافت جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے، اور صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سچائی کو سامنے لائے اور عوامی مفادات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرے تازہ اور سچائی پر مبنی خبریں عوام تک پہنچائے۔
دنیا کافی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، اور اس تبدیلی میں سب سے نمایاں کردار سوشل میڈیا کا ہے، چاہے وہ فیس بک ہو، ٹوئٹر "ایکس”، انسٹاگرام، یوٹیوب یا ٹک ٹاک ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہر فرد ایک ‘صحافی’ بن گیا ہے، ہر شخص ایک ‘رپورٹر’ بن چکا ہے اور ہر موبائل ایک ‘کیمرہ’۔ کبھی وہ دور تھا جب خبریں صرف اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینلز تک محدود ہوتی تھی۔ خبر کے نشر ہونے سے پہلے ایک مکمل ادارتی عمل سے گزرا کرتی تھی۔ تحقیق، تصدیق اور ذمہ داری کو بنیادی اہمیت دی جاتی تھی۔ لیکن سوشل میڈیا نے یہ سب کچھ بدل دیا۔
ان پلیٹ فارمز پر سچائی کی جگہ سنسنی، تحقیق کی جگہ رفتار اور تربیت کی جگہ سستی شہرت نے لے لی ہے۔ یہ صرف صحافت کا بحران نہیں، بلکہ ایک پورے سماج کے فکری زوال کی کہانی ہے۔ جہاں صحافی کم ہو رہے ہیں اور خودساختہ رپورٹروں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے سچائی، جھوٹ اور افواہ کے بیچ فرق مٹتا جا رہا ہے اور صحافت سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔
صحافت جو کبھی عوام کی آواز ہوا کرتی تھی، اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ ریٹنگز، اشتہارات اور وائرل کلچر نے اس پیشے کی اصل روح کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت اب صحافت نہیں رہی، یہ ایک شو بن چکی ہے۔ جو صحافی سچ لکھتا ہے، وہ یا تو دبایا جاتا ہے یا نوکری سے نکالا جاتا ہے۔ ایسا ماحول سنجیدہ اور اصول پسند صحافیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ کئی تجربہ کار صحافی یا تو پیشہ چھوڑ چکے ہیں یا متبادل روزگار کی تلاش میں ہیں۔’ ان کے مطابق سوشل میڈیا نے اطلاعات تک رسائی کو عام کر دیا، لیکن غیر تربیت یافتہ اور غیر ذمہ دار افراد کی بھرمار نے پیشہ ور صحافت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
دوسری جانب پیشہ ور صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان سے دن رات کام لیا جاتا ہے، خطرناک علاقوں میں رپورٹنگ کرائی جاتی ہے، تاہم معاوضہ کے طور نہ تو انہیں معقول تنخواہیں فراہم کی جاتی ہے، نہ تحفظ، اور نہ ہی کوئی مراعات٬ کئی صحافیوں کو مہینوں تنخواہیں نہیں ملتی، اور جو تنخواہیں انہیں واگزار کی جاتی ہے وہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ گھر چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔