تحریر: سعدیہ اکیرا
عنوان:ارض مقدس
بیت المقدس کی آزادی کے خواب سجائے اہل فلسطین کی داستان ایک صدی پر محیط ہیں
اہل فلسطین کی کہانی روشنائی سے نہیں لکھی گئی بلکہ فلسطینی نے اسے اپنے خون سے لکھا ہے فلسطین کے چپہ چپہ پر قربانیوں کی ایسی لازوال داستانیں ہیں جن سے وہاں کے باشندوں کی جرات، بہادری، ہمت، غیرت اور استقامت کا پتا چلتا ہے فلسطین کا ہر شہری اسرائیلی ظلم وبربریت کا شکار ہے اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند اور اردہ مظبوط ہیں وہ اسرائیل کے ہر ظلم کے خلاف ہمیشہ ڈٹ کر کھڑا ہوتے ہیں
دنیا کی ساری صیہونی طاقتیں مل کر بھی فلسطینیوں کی ہمت ، عزم حوصلے کو کمزور نہیں کرسکی فلسطین کا بچہ بچہ آج بھی اپنی آزادی اور حرمت کے لیے صیہونی طاقتیں کے سامنے کھڑا ہے فلسطین کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے اور نہ ہی اسرائیل کی طرح طاقت پھر بھی وہاں کا بچہ بھی اپنے ہاتھ میں اٹھائے ہو پتھر سے اسرائیلی فوج کوخوف زدہ رکھتے ہیں
فلسطین جس سرزمین کی حفاظت اپنی جان دے کر کررہے ہیں وہ سب مسلمانوں کا دل ہے کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بیت المقدس کا مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں ہے بلکہ یہ تمام ملت اسلامیہ کا مسئلہ ہے اور تمام امت مسلمہ کا دل فلسطین کے ساتھ ڈھرکتا ہے ان دکھ سانجھا ہے ایک صدی سے اسرائیل فلسطین پر ظلم ڈھا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ کچھ وقت سے ایسا لگا رہا تھا کہ جیسے امت مسلمہ کو بھی یاد نہیں رہا کہ ایک ملک فلسطین بھی ہے جو ہماری مدد کا منتظر ہے جو یہ چاہتا ہے اس کے لیے بھی آواز اٹھائی جائے اور انہیں حق خودارادیت دیا جائے
لیکن ہم سب اپنے مفاد میں یہ سب بھولتے جا رہے تھے فلسطین کے مجاہدین نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلایا ہے اور بہت شدت کے ساتھ اسرائیل پر حملہ کرکے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے دنیا ایک پھر اسرائیل کے مظالم کو دیکھنا کی کوشش کی ہے
فلسطین میں نئے سرے سے شروع ہونے والی جنگ میں فلسطین کو اس وقت جتنی مسلمہ امہ کی مدد کی ضرورت شاہد ہی کبھی ہوئی ہو اس وقت ہم سب کو اکٹھے ہوکر صہیونی ریاستوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین تنہا نہیں ہے بلکہ ساری امت مسلمہ بیت المقدس کی حفاظت کر گی چاہے پھر اس کے کچھ بھی کرنا پڑے جس طرح سارے صہیونی ایک ساتھ ہیں ہمیں بھی اس وقت مفاد سے نکل کر سوچنا ہو گا فلسطین اس وقت مسلم ممالک کی طرف دیکھا رہا ہیں صرف یہ کہہ دے نے سے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اس کچھ نہیں ہونے والا امریکہ نے جس طرح ہر موقع اور ہر محاذ پر اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور اب بھی آپنا ایک بحری بیڑے اسرائیل بھیج دیا ہے اور ہم صرف بیانات کی حد تک ہی ان کے ساتھ ہیں ہم سب اس وقت تک غزہ پر اسرائیل کی بم باری ہی بند نہیں کرواسکے اور نہ ہی کوئی اور امداد پہنچا پائے ہیں وہاں غذا کی کمی ادویات کی شدید کمی ہے وہاں بچوں اور عورتوں کو اور ایمبولینس تک کو نشانہ بنایا جارہا ہے فلسطین ہمیں اپنی مدد کے لیے پکارا رہے ہیں اور ہم اتنے بے حس کیسے ہو گئے کہ ہمارا ایک حصہ لہو لہان ہے اور ہم صرف بیانات دے کر خود کو اس سب سے بری و ذمہ ہو گئے ہیں
پاکستان جو اسلامی ممالک کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے اس نے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی شدید الفاظ میں مذمت کرکے سارا معاملہ اقوام متحدہ پر ڈال دیا ہے اقوام متحدہ جس کبھی بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر ہی نہیں آئے اس نے ہمیشہ وہ ہی کیا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے چاہا ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ فلسطین جس کے پاس نہ اسلحہ نا ہی کوئی مظبوط معاشیاتِ ہے اور یہودیوں کے قبضے میں ہونے کے باوجود ان کے بچے بھی ڈٹ کر کھڑا ہیں کیا یہ جنگ صرف فلسطینیوں کی ہے کیا بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا ہے اور کیا اللّٰہ یا ان کے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ کہیں فرمایا تھا کہ جہاد اس وقت کرنا جب معاشی حالت بہتر ہو یا یہ کہا تھا کہ طاقت ور دشمن ہو تو صرف دعا کرنا نہیں نا تو پھر ہمیں دنیا کے امن کی فکر ہے جو امن ہمارے لیے تو کبھی تھا ہی نہیں کیونکہ مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہے تو جب ایک حصہ تکلیف میں ہو تو امن کیسا
یہ فلسطینیوں کا نہیں یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم آپنے بہن بھائی کی مدد کس طرح سے کرتے ہیں
یہ دنیا ہمیشہ کے لیے نہیں ہے ہمارا تو یہ ایمان ہے اور مسلمان کبھی بھی جہاد اسلحہ اور پیسہ کے زور پر نہیں لڑتا
لیکن افسوس ہمارے لوگ صرف مذمت اور افسوس کر کے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں ہمارا میڈیا بھی بس سرسری سے خبر دے کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا کر دیا ہے جس طرح کرکٹ پر ٹراسمیشن شروع کی جاتی ہیں اس طرح فلسطین کے لیے آواز اٹھائی جاتی لیکن سب کی آنکھوں پر مفاد کی ایسی پٹی باندھی ہے کہ فلسطین کے بچوں اور عورتوں کی آہ بکا کس کو سنائی نہیں دے رہی
اللّٰہ اسلامی ممالک میں تھوڑی سے غیرت دے صرف مذمت نہیں بلکہ آگے بڑھ کر فلسطین سے ساتھ عملی طور پر کھڑا ہوجائے۔ آمین