فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کیا ہے اور کیا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟
تحریر۔۔۔۔ بشریٰ جبیں
کالم نگار تجزیہ کار
پیر کے دن غزہ کی پٹی سے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملوں میں کم از کم 300 افراد کی ہلاکت کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے جوابی کارروائی کے دوران بمباری کی جس سے 250 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
واضح رہے کہ سنیچر کے دن حماس کی جانب سے اسرائیلی فوج کے مطابق 3000 راکٹ اسرائیل کی سرزمین پر داغے گئے جس کے بعد حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ مئی کے بعد سے یہ سب سے زیادہ پرتشدد کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے۔
مشرق وسطی کے اس طویل اور خونی تنازعے کو دہایاں گزر چکی ہیں جس کا مستقبل قریب میں بھی کوئی مستقل حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس تنازعے کا تناظر سمجھنے کے لیے بی بی سی کی جانب سے چند اہم سوالات کے جواب دیے جا رہے ہیں۔
یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔ اس وقت فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ تاہم پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیرتسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تناؤ کا آغاز ہوا۔
برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستیں قیام میں آئیں تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔
سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔ تاہم 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام ہوا تو اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔
یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لہا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینی ہمسایہ ممالک خود فرار ہوئے یا انھیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا۔
1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مذید پیچیدہ بنا دیا جب اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا۔ مصر کو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔یہ زمینی حملے زیادہ تر جنوبی اسرائیل میں ہوئے جن کی سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ متعدد افراد موٹر سائیکلوں پر، پیدل یا گاڑیوں پر سرحد پر موجود رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد اسرائیل میں داخل ہوئے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیںایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔
دوسری جانب فلسطینی گروہوں کو تشدد ترک کرنا ہو گا اور اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی سرحدوں، یہیودی بستیوں اور تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔