نقاب میں بھی ہم نے انقلاب دیکھا ہے۔۔۔
تحریر۔۔۔بشریٰ جبیں کالم نگار تجزیہ کار
گذشتہ چند برسوں سے ملک کے حکمرانوں اور حکومتی عہدوں پر فائز سیاسی لوگوں اور بعض ملکی وبیرونی تنظیموں کی جانب سے جو امن وامان والی فضاء کو مکدر کرنے اور اخوت وبھائی چارگی کے ماحول کو ختم کرنے نیز آپسی شانتی وآشتی کو تباہ وتاراج کرنے کی بدنیتی سے نئے نئے قوانین کو لاگو کرنے اور اسلام ومسلمانوں پر ذہنی دباؤ بنانے کے لیے جو احکامات جاری کئے جارہے ہیں وہ عالم آشکارا ہے جس پر روشنی ڈالنے یا کچھ لکھنے اور بولنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے بلکہ اس ملک کا رہنے والاہر باشندہ اس بات کو اور ان ذلیل وخسیس حرکات کو بچشم سر دیکھ رہاہے اور ملک میں ایک خاص ذہنیت اور مخصوص رنگ کو غالب کرنے کی ناپاک کوشش کو ہر عام وخاص محسوس کررہا ہے
ملک میں سیاست اور اپنی قیادت کو باقی وبرقراررکھنے کے لیے مذہبی فرقہ واریت کو فروغ دے کر
لڑاؤاورحکومت کرو
کی فرنگی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے کی مذموم پلاننگ کی جارہی ہیں
کبھی این آر سی تو کبھی طلاق کبھی مسجد ومندر تو کبھی اذان وآواز کبھی حجاب اور پردہ کو مدعی بناکر اس ملک کے رہنے والے ہندومسلم سکھ عیسائی ودیگر طبقات کے درمیان ایک طرح سے نفرت کا ماحول بنایا جارہا ہے آپسی اتحاد وہم آہنگی کو منظم انداز میں نابود کرکے نفرت وعداوت کے بیج بوئے جارہے ہیں
لیکن ان شاء اللہ ان نفرت انگیز ہواؤں کا رخ موڑ کر پھر وہی امان والی فضاء کو عام کیا جائے گا ۔۔۔۔
خداسلامت رکھے ملک کی ان بنتِ حوا خواہ وہ کسی ذات اور طبقہ سے تعلق رکھتی ہوں یا کسی کالج ویونیورسٹی کی طالبات ہوں ۔جنہوں نے این آر سی کے موقع پر اپنی ہرچیزکو قربان کرکے میدان میں آئیں اور جگہ جگہ شاہین باغ کے نام سے دھرنے دیے اور اپنے آئینی حقوق کو منوایا یہاں تک کہ بندوق بردار لوگوں کی گولیاں بھی کھائیں اور سینہ سپر ہوکر ڈٹی رہیں اسی طرح گذشتہ ایک ہفتہ سے کرناٹک میں حجاب اور برقعہ کو لے کر جو شور مچایا جارہا ہے اور جو ایک قسم کا سیاسی ناٹک کیا جارہا ہےجویقینا یوپی الیکشن کا ایک حصہ ماناجائے گا اور اپنے اسی سیاسی حربوں کو استعمال کرتے ہوے نفرتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے
اس کی پرزور مذمت کی جاتی ہے اور اس مسئلہ کو جمہوریت کے لیے بدنماداغ تصورکرکے ایوانوں میں بیٹھے ذمہ داروں تک یہ بات پہچانا چاہتی ہوں کہ خدارا سونے کی چڑیا کو مٹی کی گڑیا نہ بناؤ کہ جب چاہو جدھر چاہو اور جیسے چاہو اس کو توڑ مروڑ کر مسل دیا جائے اس ملک کی سب سے اچھی اور خوبصورت جمہوری تہذیب اور آئینی حقوق کو پامال نہ کرو
محض اپنی سیاست وقیادت کو بچانے کے لیے ملک کی یکتا اور سندرتا کو داؤ پہ نہ لگاؤ۔۔۔۔۔حجاب اس ملک کی رہنے والی ہر مسلم خاتون کا مذہبی حق ہے اور دستور نے اس حوالہ سے ہر مذہب والوں کو اپنا اپنا مذہبی حق اور آزادی دی ہے جس کو آج گمبھیر مسئلہ بناکر ملک کی رسوائی کا باعث بنایا جارہا ہے موجودہ واقعہ سے پہلے کبھی اس طرح کی سوچ کسی ہندوستانی کے ذہن وخیال میں نہیں آئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے ہر شعبہ سے متعلق کچھ لوگ ایک خاص قسم کا رنگ دینا چاہتے ہیں جو فرقہ پرستی اور تعصب کی آگ کو دہکا کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں
لیکن میں سلام کرتی ہوں ان شیر دل اور شاہین صفت خواتین کو جنہوں نے دلی کے شاہین کا آغاز کرکے ملک کے کونے کونے میں عورتوں کے اندر حوصلہ وہمت پیدا کردی جے این یو کی ان باوفا طالبات کو سلامی دیتی ہوں جنہوں نے پوری ہمت وشجاعت کے ساتھ فرقہ پرستی کے سامنے ڈٹے رہے اور دم توڑنے پر مجبور کردیا اسی طرح کل کرناٹک کے مہاتماگاندھی کالج اوڑپی کی بہادر طالبہ مسکان خان کے جذبہ ایمانی کو سو سلام کرتی ہوں جس نے فرقہ پرستی کا جس جوانمردی وہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور منھ توڑ جواب دے کر ایک بار پھر حضرات صحابیات کے جذبہ ایمانی کی یادتازہ کردی اور ملک کے حکمرانوں کو دوٹوک جواب دے دیا کہ وہ کسی قیمت پر حجاب پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی جان جائے مگر ایمان نہ جائے والی تمثیل پیش کرکے ملک کی لاکھوں خواتین کے دلوں میں حرارت ایمانی جگادی
یہ سچ ہےکہ اللہ تعالی نے اس صنف نازک کی حفاظت وصیانت کی ذمہ داری ایک مرد کے سپردکی ہے مگر عورت کو بھی اپنی ذات میں ایک تناور درخت بنایا جو ہر قسم کے سرد وگرم حالات کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کرسکتی ہے پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ ڈٹ کر وہ کسی بھی طاقت کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے قرآن واحادیث کے حوالہ سے اگر یہ بات کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ تاریخ اسلام عورتوں کے جذبہ قربانی وہمت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے
تاریخ اوراق پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جوکرداررہا ہے وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک سبق ہے حضرت خدیجۃ الکبری رض عنھا جنہوں نے سب سے پہلے تصدیق رسالت کا اولین شرف حاصل کیااور وحی اول کے نزول کے موقع پر بھی آپ علیہ السلام کو تسلی بخش و حوصلہ افزاء کلمات کہہ کر آپ کا بوجھ ہلکا کیا اپنوں اور پرایوں کی جانب سے آنے والی مصائب ومشکلات رشتہ داروں کی جانب سے ہونے والے طعن وتشنیع شعب ابی طالب کی محصوری تمام مشقتوں وصبر آزما حالات میں بھی اپنے دین وایمان پر ڈٹی رہیں اور کسی کی پرواہ کے بغیر زندگی گذار کر اس دارفانی سے رخصت ہوئی۔۔
حضرت زینب بلند کردار والی خاتون کی بھی یادتازہ ہوگی جنہوں نے نہ صرف اپنے بیٹوں کی شہادت کا غم سہا بلکہ اپنے شیر خوار بھتیجوں اور بھائی کی قربانیوں کو بچشم خود دیکھااور قربانیوں کی تاریخ میں نمونہ بن کر چل بسیں
حضرت ام عمارہ کی تاریخ کوپڑھیں تو پتہ چلے گاکہ کس ہمت کے ساتھ احد کے معرکہ میں شریک ہوئیں اور ایسی شجاعت وبہادری کا مظاہرہ کیا کہ مسلمان مغلوب ہوتے دکھائی دیے تو آپ نے پانی کا مشکیزہ پھینک کر تلوار سمبھالی اور دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اترآئی اور خاتون احد کا لقب پائی ایسا لگتاہےکہ
راہِ خدا کی شہید اول خاتون حضرت سمیہ کی تاریخ کو آج دہرانے کی ضرورت ہے جنہوں نے سب سے پہلے اپنے خون کا نذرانہ ہیش کرکے شجر اسلام کی آبیاری کی آپ نے اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ مل کر دشمنان اسلام اہل مکہ اور ابوجہل کے ظلم وستم کا مردانہ وار مقابلہ کیا سخت سے سخت اذیتوں کے باوجود آپ نے اسلام کا دامن نہیں چھوڑا بالآخر اسلام کی شہید اول خاتون قرارپائیں
آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بدرجہا بہتر وباقی ہے بہرحال کرناٹک کی یہ مسلم طالبہ مسکان خان کی ہمت افزائی اور جرأت کو سلام کرنے کی ضرورت ہے جس نے نقاب میں انقلاب پیدا کیا اور ساری دنیا کو جھجھوڑ کر رکھ دیا اور اپنی غیرت ایمانی وحمیت دینی کا ثبوت دے دیا
اگر ہماری مائیں بہنیں آج بھی اپنے اندر ایمانی جذبات کو پیداکرکے زندگی گذاریں گی تو یقینًا ان نفوس قدسیہ کی طرح ہمارے ساتھ بھی باری تعالی کی مدد ونصرت شامل حال رہے گی
اللہ پاک عالم اسلام کے مسلمان مردوخواتین سب ہی کے اندر جذبہ قربانی پیدا فرمائے اپنے دین وایمان کی عظمت ووقعت کو سمجھتے ہوے اس کے تحفظ کے لیے ہر آنے والی شیطانی وطاغوتی ہواؤں کاسینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے کی ہمت وتوفیق عطاء فرمائے۔۔۔۔آمین