*خودکشی کا بڑھتا رجحان ایک المیہ، ایک پکار*
تحریر۔۔۔بشریٰ جبیں
کالم نگار
دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خودکشی کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں سے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ کوئی نوجوان، کوئی والد، کوئی ماں، یا کوئی طالب علم زندگی کی بازی ہار گیا۔ یہ صرف ایک فرد کی موت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا خاندان بکھر جاتا ہے، خواب ٹوٹ جاتے ہیں، اور سماج کے ضمیر پر ایک اور زخم لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خودکشی کی بڑی وجوہات میں ڈپریشن، اینگزائٹی، اور دیگر ذہنی امراض شامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت کو اب بھی "کمزوری” یا "وہم” سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے مسائل بانٹنے سے کتراتے ہیں، علاج کروانے سے شرماتے ہیں، اور یوں تنہائی اور دباؤ ان کی زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے۔
معاشی بحران، بیروزگاری، گھریلو جھگڑے، معاشرتی دباؤ، اور توقعات کا بوجھ بھی افراد کو اس نہج پر لے جاتا ہے کہ وہ زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ آج کا نوجوان صرف ڈگری کے بعد نوکری کے انتظار میں نہیں جلتا بلکہ اس پر معاشرتی سوالات کا بوجھ بھی ڈالا جاتا ہے۔ بیٹی کے جہیز کا فکر، والدین کے علاج کا خرچ، اور بڑھتی ہوئی مہنگائی انسان کی کمر توڑ دیتی ہے۔
آخر اس کی وجہ اور اسباب کیا ہیں کہ انسان خود اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لے زیادہ تر واقعات میں لوگ پنکھے سے لٹک کر جان دے دیتے ہیں۔ کبھی محبت میں ناکامی بھی خودکشی کا سبب بن جاتی ہے۔
ہم سب اپنے اپنے خول میں بند ہو گئے ہیں۔ کسی کے پاس بھی کسی دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے اور انسان اس طرح تنہائی کے آسیب کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر یہ تنہائی اسے زندگی سے بے زار کر دیتی ہے۔ اوپر سے مسلسل مہنگائی کی شرح کا بڑھنا، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں کا بڑھنا اور بے روزگاری، انسان کرے تو کیا کرے۔ بس اسے نجات اس میں نظر آتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لے۔
زندگی اللہ کا دیا ہوا انمول تحفہ ہے۔ ایک دوسرے کا سہارا بننا، ایک دوسرے کو سننا اور سہارا دینا، شاید کسی کو خودکشی کی دہلیز سے واپس کھینچ لے آئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کبھی کبھی ایک پیار بھرا جملہ، ایک ہمدردانہ رویہ، کسی کی زندگی بچا لیتا ہے۔
بقول شاعر۔۔۔۔
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
اللہ پاک ہم سب کو اپنے امان میں رکھے آمین

























