تحریر۔۔۔بشریٰ جبیں جرنلسٹ تجزیہ کار کالم نگار

مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟ قرآن واحادیث کی روشنی میں۔۔۔۔۔

 

مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟
قرآن واحادیث کی روشنی میں۔۔۔۔۔

تحریر۔۔۔بشریٰ جبیں جرنلسٹ
تجزیہ کار کالم نگار

جب ہم اپنے گرد و نواح پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو مختلف انسانوں کو مختلف طرح کی مصیبتوں میں مبتلا دیکھتے ہیں۔مشاہدے اور تجربے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مصیبتوں کی زدّ میں آنے والے لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات مصیبتوں کا نشانہ بننے والے لوگ بہت زیادہ نیکوکار اور اسی طرح بعض حدِ اعتدال سے بڑھ جانے والے، ظلم اور زیادتیاں کرنے والے ہیں۔ نیکوکاروں کو مصیبتوں میں مبتلا دیکھ کر لوگ بالعموم دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے ان نیکوکاروں کے لیے رحمت کے طلبگار بن جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مجرموں اور متکبروں کو برے انجام سے دوچار ہوتا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔
مصیبتوں اور تکالیف کے اسباب پر جب قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ مصیبتوں کے اسباب پر جب غور کیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

1۔ آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے جب مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255، 256 اور 257 میں ارشاد فرماتے ہیں ”اور البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اورمالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور وہی لوگ ہیں (کہ) ان کے رب کی طرف سے ان پر عنایات ہیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ تاریخِ انبیاء علیہم السلام
کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک اپنی بستی والوں کی عداوت، شقاوت، مخالفت، طعن و تشنیع، سب و شتم اور سنگ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بستی والوں کی شقاوت کو سہنا پڑا اور بادشاہِ وقت نے بھی آپؑ سے عدوات کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو توحید باری تعالیٰ سے پختہ تعلق کی وجہ سے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو محفوظ و مامون فرما لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی وجہ سے بہت سی مصیبتوں کو سہنا پڑا۔ آپؑ نے فرعون کی رعونت، ہامان کے منصب، شداد کی جاگیر، قارون کے سرمائے کا مقابلہ کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کا طوالت اور تسلسل سے اظہار کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بستی والوں کی مخالفت کو سہنا پڑا۔

نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی بہت سی تکلیفیں، مشکلات اور آزمائشیں آئیں۔ آپﷺ پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپﷺ کو سرزمین مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، طائف کی وادی میں آپﷺ کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ اس موقع پر جبرئیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے تو نبی مہربان حضرت رسول اللہﷺ نے فرمایا ”اے اللہ! انہیں ہدایت دیدے‘ بے شک یہ نہیں جانتے‘‘۔ نبی کریمﷺ کے تلامذہ اور آپﷺ کے قریبی رفقاء کو بھی دین سے تعلق کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حضرت بلالؓ، حضرت خبابؓ، حضرت زنیرہؓ اور حضرت سمیہؓ نے تاریخی تکالیف کو برداشت کیا لیکن ایمان اور استقامت کے ساتھ پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کیا۔

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 50 میں ارشاد فرماتے ہیں ”خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘‘۔ اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اسی طرح سورہ الٓم سجدہ کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا ”اور بلاشبہ ہم ضرور چکھائیں گے انہیں قریب ترین عذاب، سب سے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ پلٹ آئیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ گناہگاروں کو ان کی سیئات کی مناسبت سے مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ بعض لوگ ان تکالیف کے آ جانے کے بعد بھی گناہوں پر اصرار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ تکالیف کے آ جانے کے بعد اصلاح کرتے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے راضی ہونے کے سبب ان کی تکالیف کو دور فر ما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کی مثال دی ہے جس کے پاس امن اور اطمینان تھا اور ان کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہر سمت سے بکثرت آرہا تھا۔ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا شکار بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس طرح کی تکالیف کے بعد انسان کو توبہ، استغفار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو خواہ کتنے ہی بڑے گناہوں کا مرتکب کیوں نہ رہ چکا ہو‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ خطائوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک، قتل اور زنا کا ذکر کیا اور ان کے مرتکب کوجہنم کی خبر سنائی لیکن جو لوگ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کرتے ہیں‘ ان کو بشارت دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دے گا۔ سورہ نوح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوحؑ کے اس قول کا ذکر کیاکہ بخشش مانگو اپنے رب سے، بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے کا تم پر بارش موسلا دھار اور مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ کر دے گا تمہارے لیے باغات اور نہریں۔ گویا کہ توبہ اور استغفار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے عذابوں کو ٹال دیتے ہیں۔ چنانچہ جب قوم یونسؑ نے اجتماعی توبہ کی اور ایمان کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذاب کو ان سے دور کر لیا۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کئی حادثات اور اچانک تکالیف مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا طاقتور کوئی نہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کرکے انہیں زمین پہ یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود اور قوم مدین کے لوگوں پر چنگھاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ قوم ثمود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اونٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب کو مسلط کر دیا۔

درحقیقت اس قسم کی تکالیف اور حادثات میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہونے کی بجائے اس کی تابعداری کے راستے پر کاربند رہیں اور ہمیشہ دعا گو رہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قسم کے رویوں اور طرزِ عمل سے محفوظ رکھے۔ آمین!

Exit mobile version