تحریر ۔۔۔بشریٰ جبیں جرنلسٹ
کالم نگار تجزیہ کار
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کر تے ہیں۔۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا معیار بدلتا جاتا ہے ۔۔۔ اور پہلے سے کہیں گر بھی جاتا ہے ۔۔۔ اب اس ملی نغمے کو ہی لیجئے جو بچپن میں ہم اکثر یوم آزادی ، یوم پاکستان یا کسی بھی قومی دن کے موقعے پر گنگنایا کرتے تھے ۔۔۔ اور اس جیسے اور دوسرے پر مغز حب الوطنی کا جذبہ لیے دلوں کو گرما دینے والے ملی نغمات ٹی وی اور ریڈیو سے نشر کیے جاتے تھے اور تعلیمی اداروں میں تقریبات میں ایک عزم کے ساتھ کہ ہم اپنے پاک وطن کو حقیقی معنوں میں سجائیں گے ، سنواریں گے اور خوشحال ملک بنائیں گے ۔۔۔ گائے جاتے تھے ۔۔
وقت بدلتا رہا ۔۔۔ ملی نغموں کا معیار بھی بدلتا گیا ۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب جنہیں قومی ترانے کہا جاتا ہے اسے قومی کہنا قوم کی توہین ہو گی اس میں قوم کے لیے کوئی پیغام نام کی چیز تو ہوتی نہیں شاعری کا کچھ پتا نہیں ہوتا ہاں۔۔ ایک بے ہنگم سا شور شرابہ اور اچھل کود ہی رہ گیا ہے جو مغرب سے مستعار لیا گیا ہے جو ولولوں کو تازہ و جوان کرنے کے بجائے بہا کر کسی دوسری ہی سمت لے جاتا ہے۔۔جس کے بعد نہ کوئی وعدہ یاد رہتا ہے نہ اس سے تجدید کا خیال کبھی چھو کر گزرتا ہے۔
ہو سکتا ہے اس بات پر کسی کو مجھ سے اختلاف ہو جائے ۔۔۔ لیکن اپنا اپنا مشاہدہ اور نقطئہ نظر ہے ۔
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کر تے ہیں
یہ وہ عہد تھا جو ہم ہر سال ،سال میں تین چار مواقعوں پر تو ضرور ہی کیا کرتے تھے ۔۔اور اس انتظار میں رہتے کہ شاید اس سال نہیں تو اگلے سال ، اگلے سال نہیں تو اس سے اگلے سال ضرور ہمارا یہ عہد وفا ہو گا اور اس میں جو جو اقرار اور عزم ہم کیا کرتے تھے وہ ان شاءاللہ پایئہ تکمیل کو پہنچے گا ۔
اسی طرح ماہ سال کا سفر جاری رہا ، دن پر لگا کر اڑتے گئے اور آج ہم 2021 میں بیٹھے ہیں ۔۔
لیکن ذرا نظر گھما کر دیکھیں تو واضح ہو جائے گا آج اور کل کا فرق یعنی ۔۔۔۔ معیار کا بتدریج گرتے چلے جانا ۔۔۔
کل پاکستان جس حال میں بھی تھا ،بہتر تھا ۔۔۔ آج جہاں کھڑا ہے یہ سوچ کر بدن پر کانٹے آجاتے ہیں کہ کیا خدا نخواستہ آنے والا وقت اس سے بھی وحشت ناک ، خوف ناک ہوگا ۔۔ اللہ نہ کرے ۔۔
23مارچ یوم پاکستان جس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی اور دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ ہوا کہ اب بحیثیت مسلمان ہندو تہذیب کے ساتھ ملاپ کسی صورت ممکن نہیں مسلمان اپنا ایک علیحدہ اسلامی تشخص رکھتے ہیں جس کی بناءپر اب ہندو ریاست میں مسلمانوں کا رہنا ناقابل برداشت ہے
یعنی پاکستان کی بنیاد ہی کلمہ لا الہ اللہ لا بنا ۔۔
اب تو سجانے ، سنوارنے سے زیادہ بڑا سوال پاکستان کو بچانے کا ہے ۔۔
قائد اعظم نے فرمایا :
پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور یہ ہمیشہ قائم رہے گا ۔
پاکستان ان شا ءاللہ قائم رہے گا ۔۔۔ لیکن کس صورت میں ؟ آج ہمارے حکمرانوں نے جس طرح پاکستان کا سودا اس کے اسلامی اقدار کو بیچ کر کیا ۔۔ کیا اس صورت میں ؟کہ پاکستان سے آج اسلام کا نام مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے ؟
کیونکہ ہم اب جن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں انھیں ہم سے سب سے بڑا ڈر ، خوف ہی اسلام کی وجہ سے نہیں ہے ؟
ہم مادر پدر آزاد زندگی ، شتر بے مہار کی طرح گزاریں تو انھیں ہم سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ۔۔ ہاں جہاں ذرا بھی اسلامی رمق نظر آئی فورا ڈو مور کا مطالبہ ہو گیا ۔۔
ہندوستان کے ایک رہنما جسونت سنگھ کہتے ہیں :
آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوتی ۔
یہ رونا ہی بےکار ہے کہ یہ ہوتاتو یہ ہوجاتا ۔یہ نہیں تو ایسا بھی نہیں ۔
کیونکہ قائد اعظم اپنے حصے کا کام کر گئے ۔۔ ہمیں ہی قدر نہیں۔۔
لیکن اس میں ایک پیغام ضرور پوشیدہ ہے کہ جناح نہ سہی جناح جیسے کھرے اور مضبوط کردار کے حامل لیڈر اگر آج بھی ہمیں میسر آجائیں تو پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو جائے ۔۔
یقینا وہ ہم ہی میں سے ہوں گے ۔۔ تو ہمیں جائزہ لینا چاہیئے کہ کیا ہم اپنے آپ کو اس کے اہل ثابت کر رہے ہیں ۔۔ہم ایک طرف اپنی تقریروں اور تحریروں سے جس بات کی اہمیت کو اجاگر کر ہے ہوتے ہیں دوسری طرف اپنے طرز عمل سے اس کی نفی کررہے ہوتے ہیں
ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس میں برداشت ، تہذیب ، اخلاق سب کچھ ختم ہو چکا ہے ۔۔بنیادی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ۔۔ اسلامی اخلاقیات تو ناپید ہے بالکل ۔۔۔
جس کلمے کی بنیاد پر آزادی حاصل کی آج خود اس کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔۔ پھر سے ساری دیواریں پاٹ کر ہندوستان سے یکجہتی کی باتیں ہمارے دانشور کر رہے ہیں ۔۔
جہاں سے چلے تھے پھر واپسی کا سفر وہیں ہے ۔۔ کیا ہمارے بزرگوں سے علیحدہ ملک کے لیے جدوجہد کوئی غلطی تھی ؟
جو اب ہم اس کا ازالہ کرہے ہیں ؟
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
اس وعدے کے دھجیاں بکھر گئیں ۔۔۔ بنگلہ دیش کی صورت میں ، تمام صوبوں کے آپس میں اختلافات کی صورت میں ، عوام کی لسانیت کی صورت میں ، غیر ملکیوں کے پاکستان پر قبضے کے صورت میں ، ایٹمی پروگروام تک امریکہ کی پہنچ کی صورت میں ، قتل غارت گری ، نفرت ، عداوت کی صورت میں ، افراتفری کی صورت میں ، صرف اپنے حق کی بات کرنے کی صورت میں ، اپنے لوگوں کے سودے اور ان پر بمباری کی صورت میں ، کشمیر سے دسبترداری کی صورت میں ، ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی صورت میں غرض اپنی بنیادوں کلمہ اور آزادی کے غلط مفہوم کی صورت میں ۔
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
ہم کیا وعدہ کرتے ہیں ؟ جبکہ ہمیں اپنی وہ حیثیت قبول ہی نہیں جو ایک مسلمان کی ہونی چاہیئے ۔۔
ہم نام کے مسلمان ہیں کام ہمارے غیروں جیسے ۔ ۔۔ہم پاکستانی کہلاتے ہیں لیکن ہمارے عمل ہمارے ہندوستانی ہونے کی چغلی کھا رہے ہیں ۔
لیکن آج اگر تجدید عہد کا دن ایک بار پھر ہمارے سامنے ہے تو ہم پھر بھی خوش نصیب ہیں کہ ایک موقع اور ہمیں مل رہا ہے ۔۔
اس موقع کو اب ہاتھ سے جانے نہ دیں اور ہم سب یہاں عہد کریں کہ
اپنے اسی معیار پر واپس آنے کی کوشش کریں گے جس سے کفار پر لرزا طاری ہوتا تھا ۔۔
ہم پاکستان کو اپنے کردار کی سچائی سے ، پوری لگن اور خلوص سے ، دیانتداری سے ، آپس کی محبت سے ، ایک اسلامی ،
فلاحی ،خوشحال ، امن پسند ، غیروں کی غلامی سے آزاد ریاست اور مملکت بنائیں گے ۔۔۔ ان شاءاللہ
اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں
ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں ، اے روح قائد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم چلے تھے ایک نصب العین لے کر اللہ کے نام پر سرزمین کے حصول کے لیے تو اللہ نے مدد فرمائی تھی آج بھی اگر پلٹ جائیں تو یقینا اللہ پلٹنے والوں کو پسند کرتا ہے وہ آج بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا ۔۔۔
اللہ تمھاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں ، اور وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعدکون ہے جو تمھاری مدد کر سکتا ہے ، پس جو سچے مومن ہیں ان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔