تہران (سچ نیوز) ایک ایرانی صحافی نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکی ایئر بیسز پر میزائل داغ کر ایران نے اپنے دوسرے طاقتور ترین شخص کی موت کا بدلہ لے لیا ہے تو وہ غلطی پر ہیں کیونکہ ایران دشمنی کو کئی نسلوں تک بھی نبھاتا ہے۔ایران کی بدلہ لینے کی صلاحیت اور طریقہ کار کے حوالے سے ایران سے تعلق رکھنے والے صحافی یشر علی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ایرانی حکومت اپنے وقت کے حساب سے آپریٹ کرتی ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف میزائل مار دینا ہی بدلہ ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2012 میں ایک ایرانی نیوکلیئر سائنسدان کو مبینہ طور پر اسرائیل نے قتل کرادیا۔ اس واقعے کا بدلہ ایک مہینے بعد جارجیا، انڈیا اور تھائی لینڈ میں اسرائیلی سفارتکاروں کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنا کر لیا گیا۔یشر علی نے کہا کہ دوسری مثال 1992 کی ہے جب اسرائیلی فوج نے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری کو قتل کیا۔ اس واقعے کا بدلہ بیونس آئرس میں قائم اسرائیلی سفارتخانے سے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا کر لیا گیا جس میں 29 لوگ ہلاک ہوئے ۔ اسی واقعے کا بدلہ لینے کیلئے 2 سال بعد یہودیوں کے کمیونٹی سنٹر پر بھی حملہ کیا گیا جس میں 85 لوگ مارے گئے۔
صحافی نے لکھا کہ اوپر بیان کی گئی مثالیں بہت ہی تھوڑے عرصے میں لیے جانے والے بدلے کی کہانیاں بیان کرتی ہیں ، حقیقت میں ایرانی حکومت بدلے کو نسلوں تک لے جاتی ہے، ان کا بدلہ لینے کا وقت مہینوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے اور کئی سال بعد بھی بدلہ لیا جاسکتا ہے۔ایرانی حکومت کا بدلہ ہمیشہ ہی طاقت کے ایسے استعمال کے ذریعے نہیں ہوتا جس کا وہ عوامی سطح پر کریڈٹ لے سکتے ہوں۔انہوں نے ان لوگوں کو انتہائی سادہ قرار دیا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایران نے عین الاسد ایئر بیس پر میزائل داغ کر اپنا بدلہ مکمل کرلیا ہے۔ صحافی کے مطابق ایران دشمنی کو نسلوں تک نبھاتا ہے ، اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایران کے دوسرے طاقتور ترین شخص کی موت کا بدلہ ایسے میزائل حملے کی صورت میں لے لیا گیا ہے جس میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا تو وہ بہت ہی سادہ انسان ہے۔