انسان کا تبدیل ہونا آسان نہیں
تحریر۔۔۔۔سینئر جرنلسٹ بشریٰ جبیں کالم نگار تجزیہ کار
کوئی انسان ایک خاص سمت میں سوچ و بچار ایک دم سے نہیں کرتا، اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ جس طرح پانی کو برف کی شکل میں تبدیل کرنے کے لئے ایک مخصوص درجہء حرارت اور وقت کے ساتھ ساتھ سازگار ماحول کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس طرح کسی بھی انسان کے رویے، سوچنے کے انداز کو بدلنے کے لئے وقت، مخصوص حالات وماحول اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں یہ ہرگزنہیں بھولنا چاہیے کہ تبدیلی ایک مشکل، کٹھن، تکلیف دہ اور ذہنی دباؤ کا باعث بننے والا عمل ہے اور کوئی بھی انسان اتنی آسانی سے اس عمل سے نہیں گزرنا چاہتا۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ ایسا اکثر ممکن نہیں، قدرتی اور فطرتی عمل ہے انسان بنیادی طور پر تبدیل ہونے سے گھبراتا ہے، وہ اپنے کمفرٹ زون میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح کام کرتا ہے جو ایک خاص حد تک کام کرنے کے بعد آرام مانگتا ہے۔ تبدیلی کے لئے انسان کی سب سے اہم ڈویلپمنٹ اُس کا ذہن، سوچنے کا رحجان تعین کرتا ہے۔ اُس نے ایک خاص سمت میں سوچنا، چیزوں کو پر کھنے کا انداز اور ردِعمل وقت، حالات، واقعات اور تربیت کا نچوڑ ہوتا ہے۔Mary Wollstonecrat Shelley کہتی ہیں کہ ”بڑی اوراچانک تبدیلی سے زیادہ انسانی ذہن کے لئے کوئی تکلیف دہ چیز نہیں“۔ یہ عمل زبر دستی، دباؤ یا لالچ کے ذریعے موثر طور پر سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ تبدیلی کے لئے پہلی اور بنیادی شرط انسان کی آزاد مرضی اور تبدیل ہو نے کے لئے دلی خواہش لازمی امر ہے ورنہ آپ کسی انسان کو مجبوراً یہ عمل نہیں کروا سکتے۔ تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے، یہ نظامِ زندگی مسلسل تبدیلی کا عمل ہی تو ہے
” ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری اپنی ذات کی تبدیلی درحقیقت اصل تبدیلی ہے۔ مولانا رومیؒ نے کیا خوب کہا ہے۔ “ کل تک میں چالاک تھا، میں دُنیا کو تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ آج میں عقلمند ہوں، کیو نکہ میں خود کو تبدیل کررہا ہوں۔ ”اپنی سوچ، زندگی گزارنے کے نظریے، اپنے رویے، توقعات، لوگوں سے تعلقات، کام کرنے کے انداز اورعادتوں کو بدل کر بہتر زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ لوگ منصوبے بناتے ہیں مگر اُن منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے عادتیں نہیں اپناتے۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں ؛ہم تبدیلی چاہتے ہیں لیکن تبدیل نہیں ہوتے۔ قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں لیکن ٹریفک سگنل پر رُکتے نہیں۔ فٹ اور سمارٹ رہنا چاہتے ہیں، لیکن خود اُٹھ کر پانی بھی نہیں پینا چاہتے۔ سچ کو پسند کرتے ہیں، لیکن سچ سننا نہیں چاہتے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمیں اس خود فریبی کی حالت سے باہر آنا ہو گا۔
آج ہماری دُنیا اتنی ترقی اس لئے کر سکی کیونکہ ہم نے گزشتہ سالوں کی نسبت اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے۔ ذرا تصور کریں اگر انسان نے اپنے سوچنے کا انداز نہ بدلا ہوتا تو آج یہ ترقی کبھی ممکن نہ ہوتی۔
فریڈرک نطشے نے کیا خوب کہا ہے
”جو سانپ اپنی کھال تبدیل نہ کرسکے، اُسے مرنا ہی ہوتا ہے۔
بقول شاعر۔۔۔۔۔۔
عمر بھر بشریٰ یہی بھول کرتی رہی
دھول چہرے پر تھی اور صاف آئینہ کرتی رہی۔۔۔۔