تہران ( سچ نیوز ) ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایرانی قانون کی پاسداری کرنے والی قوم ہے اور تہران جب بھی کوئی قدم لے گا تو وہ غیر موزوں نہیں ہو گا بلکہ جائز اہداف کے خلاف ہی ہو گا۔مختلف غیرملکی نشریاتی اداروں کو انٹرویوز میں جواد ظریف نے کہا کہ امریکہ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس کے اپنے سنگین نتائج ہوں گے،ایران کا کوئی اقدام غیر موزوں نہیں ہوگا، قانونی اہداف کے بارے میں بین الاقوامی جنگی قانون بہت واضح ہے، امریکہ نے کئی ایرانی شہریوں اور ایرانی حکام کو مارا، جو کہ ایک جنگی اقدام ہے اور ایران اس کا مناسب جواب دے گا،میرا نہیں خیال کہ امریکہ نے تناؤ میں کمی کا راستہ چنا ہے، تناؤ میں کمی کی بات کرنا اور اس راستہ کا انتخاب کرنا مختلف چیزیں ہیں، امریکہ نے ایران اور عراق کی کئی اہم شخصیات کو غیر ملکی علاقوں میں مار دیا، یہ جنگی اقدام ہے۔انھوں نے کہا کہ امریکہ نے پہلے عراق کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اور عراقی پارلیمان نے اس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا، اس سے خطے میں لوگوں کے احساسات کو تکلیف پہنچی جن کو ایران کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اس(امریکہ)نے، کئی ایرانی شہریوں اور کئی ایرانی فوجی حکام کو مار ڈالا، یہ ایک جنگی اقدام ہے جسے ایک بزدلانہ اور دہشت گرد حملے میں سرانجام دیا گیا ہے اور ایران اس کا مناسب جواب دے گا۔
جواد ظریف نےکہاکہ تناؤ میں کمی کامطلب یہ ہے کہ امریکہ مزید ایسے اقدامات نہ کرے،ایران کو دھمکیاں دینا بند کرے اور ایرانی عوام سے معافی مانگےلیکن امریکی اقدام کے سنگین نتائج ہیں جو سامنے آئے گیں اور میرا ماننا ہے کہ وہ سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، ہمارے خطے میں امریکی موجودگی کا اختتام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ٹرمپ کی جانب سے قاسم سلیمانی کو مارنے کےاحکامات پرجوادظریف نےکہامیراخیال ہےاِنھیں اِن لوگوں نےغلط مشورہ دیاہےجو یہ سوچتے ہیں کہ تہران اور بغداد کی گلیوں میں رقص ہو گا،انھیں (ٹرمپ) کو اپنے مشیروں کے بارے میں سوچنا چاہیے، میرے خیال میں سیکرٹری مائیک پومپیو صدر ٹرمپ کو گمراہ کر رہے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ تہران اور بغداد کی گلیوں میں رقص کر رہے تھے۔
انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اب میرا خیال ہے کہ انھوں نے کل عراق اور ایران میں انسانیت کا سمندر دیکھا۔ کیا وہ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ وہ امریکی خارجہ پالیسی کو غلط سمت میں لے کر جا رہے ہیں؟۔اقوام متحدہ میں خطاب کے لیے جانے کے لیے امریکی ویزا نہ ملنے پر جواد ظریف نے کہا ہمیں سیکرٹری جنرل نے یہی بتایا لیکن سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے رابطہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں کے پاس میری درخواست کو دیکھنے کے لیے وقت نہیں تھا تاہم یہ درخواست دسمبر 2019 میں کی گئی تھی۔جواد ظریف نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اس دورے کے دوران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کوئی امید نہیں رکھتے تھے تاہم اس موقع پر وہ تھنک ٹینکس اور صحافیوں سے بات کرنا چاہتے تھے تاکہ بہتر انداز میں سمجھ بوجھ حاصل کی جا سکے۔انھوں نے کہا کہ ان کو ویزاہ نہ دینے کا اقدام ہیڈ کوارٹر معائدے کی خلاف ورزی ہے،امریکہ ایسا ملک جس میں بین الاقوامی قوانین کا کوئی احترام نہیں، جو جنگی جرائم کا مرتکب ہے اور مزید جنگی جرائم کے ارتکاب کی دھمکی دیتا ہے، ثقافتی ورثے پر حملے کی دھمکی ایک جنگی جرم ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی آج کی حکومت ایک لاقانونی حکومت ہے،میرا نہیں خیال کہ امریکی چاہتے ہیں کہ جس کو انھوں نے منتخب کیا وہ قانون سے بالاتر ہو کر کام کرے۔ امریکہ خود پر قانون کا ملک ہونے پر فخر کرتا ہے نہ کہ غیر قانون لوگوں کا ملک۔ یہ جنگل کا قانون نہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ ایران کی پراکسی جیسے کہ حزب اللہ کے ذریعے انتقام لینے کے امکان کو رد کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کوئی پراکسی نہیں،ایرانی وزیر خارجہ کے مطابق وہ عراق اور ایران سمیت مشرق وسطی میں سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں کو کنٹرول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ہماری پراکسیز نہیں،آپ نے عراق کی گلیوں میں دیکھا ہو گا کہ ہمارے پاس لوگ ہیں، پراکسیز نہیں۔ ہم ان لوگوں کو کنٹرول نہیں کرتے کیونکہ وہ ہماری پراکسیز نہیں ہیں۔ یہ جذبات، آزادانہ سوچ رکھنے والے لوگ ہیں اور اسے لیے میں نے کہا کہ وہ جو بھی کریں گے ایران اسے کنٹرول نہیں کر سکتا۔ان سے سوال کیا گیا کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ انتقامی کارروائی ایرانی حکام کی جانب سے کی جائے گی؟جواب میں انھوں نے کہا: تین طرح کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں: عراقی خود مختاری کی خلاف ورزی، عراقی حکومت اور عراقی پارلیمان نے اس پر جواب بھی دیا۔ خطے کے لاکھوں افراد کے جذبات کو مجروع کیا گیا جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اور ایران کے کئی شہریوں اور اہم فوجی حکام کو مارا گیا اور ہم بدلہ لیں گے اور اسے بزدلانہ طریقے سے نہیں بلکہ ایک واضح اور مناسب انداز میں سرانجام دیں گے۔
اس سوال پر کہ کیا اب ایران جوہری معاہدے کے تحت یورینیم افزودگی کی حدود کی پاسداری نہیں کرے گا، تو افزودگی میں اضافہ کتنی جلدی کیا جائے گا؟جواد ظریف نے کہا کہ وہ ہماری اپنی ضروریات کے مطابق ہمارا اپنا فیصلہ ہو گا لیکن ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم حدود کی پاسداری نہیں کریں گے۔ہم نے کہا تھا کہ جو اقدامات ہم نے اٹھائے ہیں، ان کے بعد اب کوئی بنیادی حدود باقی نہیں بچی ہیں۔ یہ اقدامات واپس بھی لیے جا سکتے ہیں کیونکہ ایران نیوکلیئر معاہدے پر تمام فریقوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ اتفاق کیا تھا۔ اور امریکہ اس سے دستبردار ہوا اور یورپی اقوام ایران نیوکلیئر معاہدے کے تحت اور اس کے علاوہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہیں۔اس سوال پر کہ کیا اب ایران جوہری معاہدے کے تحت یورینیم افزودگی کی حدود کی پاسداری نہیں کرے گا، جواد ظریف نے کہا: ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہم حدود کی پاسداری نہیں کریں گے،معاہدہ زندہ ہے، امریکی موجودگی ختم ہوچکی،ہم نے انھیں پانچ مرتبہ بیانات کے ذریعے نہیں بلکہ تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ہم اس طریقہ کار کو شروع کر رہے ہیں جو معاہدے میں طے پایا تھا، چناچنہ ہم انتہائی جائز انداز میں، قانون کی پاسداری کرتے ہوئے، معاہدے کے عین مطابق وہ اقدامات اٹھا رہے ہیں جن کا خلاف ورزی کی صورت میں معاہدے میں عندیہ دیا گیا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ اور یہ اقدامات فورا واپس بھی لیے جا سکتے ہیں اگر وہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ چنانچہ ایران نیوکلیئر معاہدہ اس لیے زندہ ہے کیونکہ یہ ایک نہایت حقیقت پسندانہ معاہدہ تھا۔ مگر آپ کو پتہ ہے کیا چیز مردہ ہوچکی ہے؟ شدید دباو، کیونکہ یہ بار بار ناکام ہوا ہے۔ اور ایک اور چیز مردہ ہوچکی ہے، امریکہ کی ہمارے خطے میں موجودگی۔اپنے انٹرویو کے اختتام پر جواد ظریف نے کہا آج سب ایرانی ایک ہیں، ہم سب ایرانی ہیں، ہم میں سے نہ کوئی شدت پسند ہے اور نہ ہی کوئی اعتدال پسند۔ ہم سب ایرانی ہیں جو اپنے ملک کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، اپنے وقار کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں، اور ہم سب اس شخص کو کھونے کا سوگ منا رہے ہیں جو امن کے لیے لڑا.