اسلام میں طلاق اور عورت کے حقوق
تحریر۔۔۔۔بشریٰ جبیں تجزیہ کار کالم نگار
آئے دن مسئلہ طلاق موضوعِ بحث بنتا جارہا ہے۔ میڈیا واقعات کو غلط رنگ دے کر شریعت اسلامیہ ہی کو نشانہ بناتا ہے۔ اس مسئلہ میں تعصب اور اسلام دشمنی کے ساتھ ناواقفیت اور جہالت کو بھی دخل ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کامعاملہ ہے وہ بھی اس مسئلہ میں لاعلمی اور جہالت کاشکار ہیں۔ اکثر لوگ طلاق کا غلط استعمال کرکے متعصب لوگوں اورمیڈیا کو مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ درج ذیل مضمون میں آسان انداز میں شریعت میں طلاق کے متعلق احکام اور صلح صفائی پر روشنی ڈالنا چاہونگی۔۔۔۔
ازدواجی زندگی میں اکثر شکوے شکایات، غلط فہمیاں، بدگمانی اور شک وشبہ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ مشترک خاندان، گھریلو ماحول، جذباتیت، مزاج میں تفاوت، ضد، جہالت، غربت اور منشیات کا استعمال وغیرہ۔ اس کے علاوہ دین داری یا شعوری دین داری کا نہ ہونا، خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی کا عدم احساس، دین سے غفلت و بے نیازی اکثر گھریلو ماحول کو خراب کرتی ہے۔
مندرجہ بالا باتیں ازدواجی زندگی میں ممکنات میں سے ہیں۔ ان باتوں کی اصلاح اور تدارک کے لئے شریعت اسلامیہ نے واضح احکامات اور ہدایات دی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
”وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس۔“ (سورہ بقرہ: ۱۸۷)
”اور اس نے تمہارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کی ہے۔“ (سورہ الروم: ۲۱)
”ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔“ (سورہ نساء:۱۹)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
”کوئی مومن کسی مومنہ سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی ایک عادت پسند نہ ہوگی تو دوسری صفت یقینا پسندیدہ ہوگی۔“ (مسلم)
یہ بات بھی یاد رہے کہ عورتیں عام طور پر جذباتی ہوتی ہیں۔ اس لئے جلدغلط فہمیوں کا شکار ہوجاتی ہیں، اور کچھ مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں مرد کو حکمت سے کام لینا چاہئے تاکہ معاملہ الجھنے نہ پائے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
”عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیوں کہ عورتوں کو پسلی سے پیدا کیاگیا ہے۔ اور پسلی کا سب سے ٹیڑا حصہ اوپر والا ہوتا ہے۔ اگر تم انہیں سیدھا کرنے جاؤگے تو توڑ کر رکھ دوگے۔ اوراگر
اسے اپنے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو۔“ (بخاری)
اگر مرد اور عورت میں شکوے شکایات بڑھ کر نفرت پیدا ہوگئی ہو اور نباہ مشکل نظر آرہا ہو تو ایسے حالات میں اسلام نے اصلاح اور میل ملاپ کی خاطر ان تدابیر اور حکمت عملی کو اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔ وہ اس طرح ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ۔ (اگر نہ سمجھیں تو خواب گاہ میں ان کو تنہا چھوڑ سکتے ہو، اور (ضرورت محسوس ہوئی تو تادیب کیلئے) ان کو ماربھی سکتے ہو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی بہانہ نہ تلاش کرو۔ یقین جانو اللہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔“ (سورہ نساء: ۳۴) اللہ پاک ہم سب کو دین استقامت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔۔۔۔۔