نئی دہلی (سچ نیوز) بالی ووڈ اداکارہ تنوشری دتہ نے پہلی مرتبہ ناناپاٹیکر پر ہراساں کرنے کے الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے فلم ” ہارن ’اوکے‘ پلیز“ میں ناناپاٹیکر نے ایک آئٹم سانگ کی شوٹنگ کے دوران انہیں کس طرح جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔تنوشری کے الزامات پر کوریوگرافر گنیش اچاریا نے تو اپنا موقف دیا ہے مگر ناناپاٹیکر سمیت دیگر متعلقہ افراد نے تاحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم اب اس واقعے کے عینی شاہد صحافی نے ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ بھارتی بھی ہل کر رہ گئے ہیں اور بالی ووڈ میں کھلبلی مچی ہے۔ جینیس سکویرا نے قصہ کچھ یوں بیان کیا ہے:”میں شام کو پانچ بجے کے قریب جائے وقوعہ پر پہنچا۔ میں کچھ تاخیر سے پہنچا تھا اور میرا کیمرہ مین مجھ سے پہلے پہنچ چکا تھا۔ یہ آئٹم سانگ کی شوٹنگ مشہور سٹوڈیو میں ہو رہی تھی۔ میں صحافت میں نیا تھا اور کیرئیر شروع کئے ایک سال ہی گزرا تھا۔ فلم میکر نے میرے ساتھی رپورٹر کو بلا رکھا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ ناناپاٹیکر اور تنوشری دتہ سے انٹرویو بھی دلوائے گا۔فلم کیلئے خصوصی طور پر آئٹم سانگ شوٹ کیا جا رہا تھا جو فلم میں کچھ اس طرح دکھایا جانا تھا کہ ناناپاٹیکر اور مزمل ابراہیم ایک ٹرک میں روڈ ٹرپ پر ہیں اور ہائی وے پر کسی جگہ رک پر ایک بار میں داخل ہوئے ہیں اور تنوشری دتہ وہاں پرفارم کر رہی ہیں۔ میں جب وہاں پہنچا تو میرے کیمرہ مین نے بتایا کہ ہر کوئی پریشان ہے کیونکہ ادکارہ (تنوشری دتہ) کسی بات پر غصے میں ہے، اور شوٹنگ روک دی گئی ہے۔ہم سیٹ میں داخل ہوئے جو ایک بار کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ سیٹ پوری طرح تیار تھا لیکن ڈانسرز بیٹھے ہوئے تھے۔ تنوشری دتہ بھی ایک جانب شال لپیٹے بیٹھی تھی اور بہت غصے میں لگ رہی تھی۔ ناناپاٹیکر، گنیش اچاریا اور پروڈیوسرز ایک جانب گفتگو میں مصروف تھے۔ پھر وہ ناناپاٹیکر کے پاس سے اٹھ کر تنوشری کے پاس آ گئے اور گفتگو شروع ہو گئی، میں نے پروڈکشن ٹیم کے ایک فرد سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا تو اس نے بتایا کہ ’ہیروئن تعاون نہیں کر رہی‘۔‘کچھ ہی دیر بعد شوٹنگ شروع ہوئی اور کچھ شاٹس لینے کی کوشش کی گئی۔ میں مانیٹر کے سامنے بیٹھا تھا اور دیکھ رہا تھا کہ تنوشری دتہ چہرے کے تاثرات پر قابو پانے میں ناکام تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ یا کسی پر حملہ کر دے گی یا ابھی رو دے گی، پھر سین عسکبند کرنے سے پہلے کچھ دیر ریہرسل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تبھی ناناپاٹیکر سیٹ پر آ گئے، چونکہ مجھے ان کے ڈانس سٹیپ پوری طرح یاد نہیں، مگر وہ یقینا فحش ہی تھے کیونکہ اگلے ہی لمحے تنوشری دتہ سیٹ سے آناً فاناً غائب ہو گئی۔وہ بس چلی گئی اور اچانک افراتفری پھیل گئی، کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے، تقریباً ایک گھنٹے بعد ہمیں احساس ہوا کہ تنوشری نے خود کو اپنی وینٹی وین میں بند کر لیا ہے، اسی دوران کچھ اجنبی لوگ سیٹ پر داخل ہوئے، مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ممبر تھے، ان میں ایک عورت بھی تھی جو تنوشری دتہ کی وینٹی وین کے دروازے کے سامنے کھڑی ہو گئی، میں نے اس سے پوچھا کہ تم لوگوں کو کس نے بلایا ہے تو جواب ملا کہ پروڈیوسرز نے انہیں فون کیا ہے جو تنوشری دتہ سے اپنی رقم واپس لینا چاہتے ہیں۔اب بظاہر تو وہ اس لئے یہاں آئے تھے کہ تنوشری سے پروڈیوسر کی رقم واپس لے سکیں جو انہوں نے بطور ایڈوانس لی تھی، اور مجھے یہ وجہ بہت ہی عجیب لگ رہی تھی۔ ان لوگوں نے تنوشری کی وینٹی وین کے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا اور صورتحال بہت ہی بگڑ گئی۔ کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچ گئی، مگر اس نے کچھ کیا نہیں، کم از کم میرے علم کے مطابق تو کچھ نہیں کیا، ان لوگوں کو پر قابو پانے میں بھی ناکام تھے۔ صورتحال اتنی خراب تھی کہ تنوشری دتہ کے والدین بھی وہاں پہنچ کر وینٹی وین میں داخل ہو چکے تھے اور اب گاڑی کو وینٹی وین کے سامنے کچھ اس طرح کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ اس کا دروازہ وینٹی وین کے دروازے کے بالکل سامنے آ جائے اور تنوشری دتہ براہ راست گاڑی میں بیٹھ جائے۔معاملہ مزید بگڑنے لگا تو ناناپاٹیکر سیٹ سے نکل کر اپنی وینٹی وین کی جانب بڑھے۔ میرا کیمرہ مین تنوشری کی وینٹی وین کے سامنے ہونے والے ہنگامے کو ریکارڈ کر رہا تھا اور میں کسی طرح سے ناناپاٹیکر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں مائیک دیکھا اور یقینا یہ سوچا ہو گا کہ میں ریکارڈنگ کر رہا ہوں حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ناناپاٹیکر کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی ”میری تو بیٹی جیسی ہے“ ، حالانکہ میں نے تو کچھ پوچھا ہی نہیں تھا اور مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ماجرا کیا ہے، میں حیران تھا کہ ناناپاٹیکر نے ایسا کیوں کہا۔دوسری جانب تنوشری دتہ کے والدین کسی طرح سے اپنی بیٹی کیساتھ گاڑی میں بیٹھنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور اب لوگ ان کی گاڑی پر حملہ آور تھے، گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹ چکی تھی اور جگہ جگہ ڈینٹ پڑے تھے، پولیس نے بہت کوشش کے بعد ان کی گاڑی باہر نکلوا دی اور وہ بالآخر چلے گئے۔