واشنگٹن (سچ نیوز)پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے جھوٹ کا بھانڈا بھارتی فوج کے کمانڈر نے ہی پھوڑ دیا اور لیفٹیننٹ کمانڈر ڈی ایس ہوڈا نے کہاہے کہ ” یہ ممکن نہیں ہے کہ اتنی بڑی مقدار میں بارودی مواد سرحد سے لایاجائے “۔یادرہے کہ بھارت نے پلوامہ حملے کا الزام روایتی طورپر پاکستان پر دھرا جسے پاکستان نے مستردکردیا اور کہاہے کہ بھارت ایسے بے بنیاداورافسوسناک الزامات سے گریز کرے۔بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ کار میں سوار بمبار عادل احمد ڈار نے ملٹری کانوائے پر حملے کے لیے 750پاﺅنڈز سے زائد بارودی مواد استعمال کیا، اس پر بھارت نے پاکستان پر سفارتی دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس کے امکانات کم ہیں ۔ ستمبر 2016ءمیں ایسے ہی حالات کے دوران بھارتی فوج کے ناردرن کمانڈکی کمانڈ کرنیوالے کمانڈر جنرل ہوڈا نے نیویارک ٹائمز کو بتایاکہ ” دھماکے میں استعمال ہونیوالا بارودی مواد کسی گودام سے حاصل کیے جانے کا امکان ہے جو جموں ہائی وے شاہراہ کو چوڑا کرنے کے لئے پہاڑوں کو اڑانے کی غرض سے باروداستعمال کیاجارہاتھا اور یہیں پر حملہ ہوا۔نیویارک ٹائمز نے یہ بھی لکھاکہ عین ممکن ہے کہ بمبار اندرونی وجوہات کی وجہ سے حملہ کرنے پر راضی ہوگیاہو، مزید لکھاکہ ’حملے کی نوعیت کو دیکھ کر لگتاہے کہ باغی پن اور علاقائی صورتحال کی وجہ سے حملہ کیاگیا‘۔رپورٹ کے مطابق عادل ڈار کا گاﺅں حملے کی جگہ سے تقریباً6میل دوری پر ہے اور کار میں بھرا جانے والا بارودی مواد بظاہرمقامی سطح پر لیاگیا۔نیویارک ٹائمز نے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کیلئے بھارت کے پاس زیادہ آپشن نہ ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کو چین جیسے اتحادی کی حمایت حاصل ہے جو پاکستان کیلئے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ویٹو کا اختیار استعمال کرسکتاہے ۔اسی طرح بھارت کی طرف سے کسی بھی فوجی جارحیت کے امکان کو محدود کرتے ہوئے لکھا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ متنازعہ علاقوں میں شدید برفباری ہے اور پاکستانی فوج بھی الرٹ ہے ۔ واشنگٹن میں موجود ڈپلومیٹک آبزرورز کا بھی خیال ہے کہ امریکہ اس وقت پاکستان کو تنہا نہیں کرناچاہتا ، خاص طورپر ایک ایسے وقت میں جب وہ امریکہ طالبان مذاکرات میں انتہائی اہم کردار ادا کررہاہے ۔ وائس آف امریکہ کے مطابق پیر کوامریکہ اور طالبان کے وفد کے اسلام آباد میں براہ راست مذاکرات کے نئے دور کاآغاز ہونے جارہاہے جس سے ممکنہ طورپر افغان جنگ کے سیاسی حل میں مدد ملے گی ۔