برن(سچ نیوز) پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری پہلے بھی کئی سال جیل کاٹ چکے ہیں اور اب ایک بار پھر نیب کی حراست میں ہیں۔ پاکستان میں تو انہیں غالباً اب تک کسی عدالت سے کرپشن اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات میں سزا نہیں ہوئی لیکن بہت لوگ نہیں جانتے ہوں گے کہ سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو منی لانڈرنگ کا جرم ثابت ہونے پر سوئٹزرلینڈ میں ایک بار قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ یہ اگست 2003ءکا واقعہ ہے جب 1لاکھ 17ہزار پاﺅنڈ (تقریباً 2کروڑ 34لاکھ روپے) مالیت کے ایک ہیروں کے ہار کی وجہ سے ان دونوں رہنماﺅں کے خلاف منی لانڈرنگ کا جرم ثابت ہوا۔دی گارڈین میں 8اگست 2003ءکو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق سوئٹزرلینڈ کی عدالت نے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کو 6، 6ماہ معطل قید کی سزا سنائی تھی اور حکم دیا تھا کہ وہ 80لاکھ پاﺅنڈ (تقریباً 1ارب 60کروڑ 18لاکھ روپے) کی رقم پاکستانی حکومت کو واپس کریں۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتی رہیں اور کہتی رہیں کہ وہ سوئس عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی جس میں سوئس عدالت نے یہ بھی لکھا تھا کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نے بے نظیر بھٹو کے وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں 2سوئس کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں کک بیکس لیے۔ان کمپنیوں کے نام ایس جی ایس اور کوٹیکنا تھے، جن کے ساتھ 1995ءمیں معاہدے کیے گئے۔ ان معاہدوں کے تحت ان کمپنیوں کو پاکستان میں درآمد کی جانے والی اشیاءکی کسٹمز انسپیکشن کرنی تھی۔ ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدے میں طے پایا کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے انہیں جو رقم دی جائے گی اس کا 6فیصد یہ دو کمپنیوں کو ادا کریں گی۔ ان میں ایک کمپنی ’بومر فنانسزاِن کارپوریٹڈ‘ اور دوسری ’نسام اوورسیز اِن کارپوریٹڈ‘ تھی۔ یہ دونوں کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈز میں رجسٹرڈ تھیں۔ ان میں سے بومر فنانسز کے بینیفشل مالک آصف علی زرداری تھے، تاہم حقیقت میں بے نظیر بھٹو بھی آصف زرداری کے اثاثوں میں شراکت دار تھیں اور ڈِس پوزیشن کا اختیار رکھتی تھیں۔ دوسری کمپنی نسام اوورسیز کے بینیفیشل مالک ناصر حسین تھے جو بے نظیر بھٹو کے بہنوئی تھے۔ ان کک بیکس کی مد میں بومر فنانسز کو 82لاکھ ڈالر اور نسام اوورسیز کو 38لاکھ ڈالر دیئے گئے۔جس ہیروں کے ہار کی وجہ سے بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری پکڑے گئے اس کی قیمت کا ایک حصہ نقد اور ایک حصہ بومر فنانسز کے اکاﺅنٹ سے ادا کیا گیا تھا۔اس کمپنی کے اکاﺅنٹ سے صرف یہی رقم نکلوائی گئی تھی، جس کے بعد پاکستانی حکام کی درخواست پر اس کمپنی کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے۔بعد ازاں یہ ہار سوئس بینک والٹ سے برآمد ہوا اور اسے بھی ضبط کر لیا گیا۔پانچ سال کی تحقیقات کے بعد سوئس عدالت کے مجسٹریٹ ڈینیئل ڈیوڈ نے یہ فیصلہ سنایا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر کا رویہ پاکستان میں مجرمانہ طور پر قابل گرفت ہے۔ “