سرینگر (سچ نیوز) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے پر ممکنہ مخدوش صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرلی ہے جس کے لئے مراعات اور سہولتوں کا پیکیج تیار کرلیا گیا۔روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق سیکورٹی اداروں میں بددلی روکنے کے لئے حکمت عملی بھی زیر غورہے جبکہ کشمیریوں کے دل جیتنے کے لئے 50 ہزار ملازمتوں، مراعات اور سہولتوں کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی جارہی ہے۔بھارتی حکومت کو کرفیو اٹھائے جانے پر ردعمل کابھی ڈر ہے جبکہ ممکنہ خانہ جنگی اور حملوںکابھی خوف ہے۔ تین ہزار کروڑ روپے سے فلم سٹی کے قیام، 22 ڈگری کالجز قائم کرنے، سوا ارب ڈالرز سرمایہ کاری منصوبے کے تحت ہوٹل قائم کیا جائے گا، انفراسٹرکچر کے لئے 270 کروڑ روپے کے 6 منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا ہے۔کشمیر میں کرفیو کے خاتمے کی صورت میں مودی حکومت کو عوامی ردعمل کا ڈر ہے۔وہ2016میں برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کے سلسلے کو دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔اسی خوف کے پیش نظر ابلاغ پر شدید پابندیوں اور اس کی معطلی، مسلسل کرفیو اورمرکزی سیاسی رہنماﺅں بشمول دو سابق وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کرنے جیسے اقدامات اٹھائے گئے۔مودی حکومت وادی میں ممکنہ خانہ جنگی،حملوں،کشیدگی سے بھی خوفزدہ ہے۔عمران خان نے بھی عالمی برادری کو باور کرایا ہے کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد کشمیر میں قتل عام کا خدشہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی حکومت جب بھی کرفیو ختم کرے گی تو کشمیر میں تحریک آزادی شدت کے ساتھ دوبارہ ابھرے گی۔بھارت کےلئے اسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ کشمیر کو لاکڈاﺅن کیے تقریباً دو ماہ ہونے کو ہے،لیکن مودی حکومت خوف کا شکار ہے۔اسی خوف کے پیش نظر مودی حکومت وادی میں عوام کے مسائل سے نمٹنے، اعتماد سازی اور مقامی سیکیورٹی ایجنسیوں میں بددلی کو روکنے کیلئے فوری اور موثر حکمت عملی ترتیب دے رہی ہے۔مودی نے وزرا کی یونین کونسل کو ہدایات جاری کیں کہ کشمیر میں منصوبوں پر کام تیز کیا جائے، اور اس کے لئے مقامی حکام اور طلبا کو شامل کیا جائے۔وزیر خزانہ نے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ جلد ہی کشمیر کے لئے کروڑوں کے انفرااسٹرکچر کا اعلان کیا جائے گا، وزرا مختلف پراجیکٹ کے بارے تجاویز دیں اور اس کو مدنظر رکھ کر پیکج کی رقم کا اعلان کیا جائے گا۔مودی نے مہاراشٹرا میں انتخابی ریلی سے خطاب میں کہا کہ کشمیر کو دوبارہ جنت بنائیں گے اور ہر کشمیر ی کو گلے لگائیں گے۔کشمیر میں سرمایہ کاری کے راستے کھولنے کےلئے مودی حکومت نے پہلی گلوبل انویسٹر کانفرنس کا انعقاد اکتوبر میں سری نگر میں کرنے کا اعلان کیا،تاہم حالات کے پیش نظر اب اس کانفرنس کو آئندہ برس کےلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ابوظہبی میں بھارتی ارب پتی بی آ ر سیٹھی نے مقبوضہ جموں کشمیر میں تین ہزار کروڑ کا ’ فلم سٹی‘ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فلم سٹی بارہ مربع کلومیٹر پر پھیلاہوگا۔بزنس مین بی کے مودی نے اورسیز سٹیزن آف انڈیا انویسٹمنٹ فورم کے قیام کا اعلان کیا جس کے فنڈ کا حجم سو ارب ڈالر ہے،جو بھارت میں سرمایہ کاری کرے گا،اس فورم کاپہلا منصوبہ کشمیر میں ہوٹل کی تعمیر ہو گا۔ بجلی کے مرکزی وزیر آر کے سنگھ اور مقبوضہ وادی کے گورنر نے کشمیر میں15 پاور پراجیکٹس کا افتتاح کیا،اس کے علاوہ دس ہزار کروڑ کے دیگر بیس منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔جموں کشمیر کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی۔حکومت نے تمام محکموں اور وزارتوں کو ہدایات جاری کیں ہیں کہ منصوبوں کے لئے مقامی افراد کو لیا جائے۔ رواں ماہ کے اوائل میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ پاور انفرااسٹرکچر کےلئے270کروڑ کے چھ منصوبوں پر کام شروع کردیا گیا ہے۔بھارت نے اپنے اسمارٹ سٹی مشن کے تحت کارگل اور لیح کوشامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جموں بھی اس کا حصہ ہے۔ بھارتی حکومت نے ملک بھر میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعتوں،تنظیموں اور اداروں کو بھی اعتماد میں لینا شروع کردیا ہے،علمائے کرام اب کشمیر کی خصوصی احیثیت کے خاتمے کی حمایت کررہے ہیں، جمعیت علمائے ہند نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے، مرکزی جماعت اہل حدیث نے بھی مودی اقدامات کی حمایت کی ہے۔دہلی حکومت کشمیر میں تعلیمی اور روزگار پیکیج کااطلاق کرنے جارہی ہے جس کا مقصد چار لاکھ72ہزار نوجوانوں کو اس سے فائدہ پہنچانا ہے۔ریاست کے22ڈگری کالجز میں یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے کہ جیسے نوجوان تعلیم پوری کرے اسے روزگار فراہم کردیا جائے۔ آئندہ چند ماہ میں پچاس ہزار کشمیری نوجوانوں کو نوکری فراہم کی جائے گی۔مودی حکومت نے کشمیر کی ترقی کےلئے وزرا کی ٹیم تشکیل دی ہے جو بلوپرنٹ تیار کرے گی۔ ٹیم 31اکتوبر کو رپورٹ جمع کرائے گی۔ پانچ اگست کو مودی حکومت نے آئین کے آرٹیکل370کومنسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی احیثیت ختم کردی۔ مودی کی جماعت بی جے پی کو اس فیصلے سے جن فوائد کے ملنے کاامکان ظاہر کیا جارہا ہے وہ یہ کہ مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر ریاستوں میں سیاسی برتری اور تیسرے فریق کی جانب سے ثالثی کی کوششوں کے ردعمل میں کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینا ہے۔حکومت کرفیو کے خاتمے کے بعد مقامی انتخابات منعقد کروانے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے حلقوں کی حد بندی کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کا متوقع انخلاء، کابل میں طالبان کی واپسی، اور امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے ممکنہ طور پر مودی کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی جلد بازی پر اکسایا۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے سفارتی کوششوں کو تیز کیا جن میں بھارتی ہائی کمشنر کو نکالنے، سرحد پار تجارت روکنے، چین، امریکہ، اقوام متحدہ اوراسلامی سربراہی اتحاد کے سامنے بھارتی مظالم اور اقدامات کواٹھایا، ان سفارتی پیش رفتوں سے مقبوضہ جموں و کشمیر کا تنازع دوبارہ عالمی نوعیت اختیار کر گیا۔برطانوی اخبار”فنانشل ٹائمز“ میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے مضمون میں کہا کہ پارلیمنٹ نے مقبوضہ جموں کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی آئینی طریقے سے کی ،370آرٹیکل عارضی تھا جس کی وجہ سے ریاست میں قومی قانون سازی میں رکاوٹ تھا۔کشمیر میں دیگر ملک کے مقابلے میں ایک کشمیری کےلئے اوسطاً دس گنا زیادہ فنڈز دیا گیا، لیکن اس فنڈز کا وجود نظر نہیں آیا۔منصوبے سست روی کا شکار رہے، فنڈز کرپشن کی نذر ہوئے، ریاستی قوانین خواتین کوجائداد کا حق نہیں دیتے،بچوں کے تحفظ کے پروگرام نہیں، مہاجرین کے ساتھ غیر مساوی سلوک تھا۔انہوں نے لکھا کہ قانون سازی سے بھارت کی بیرونی سرحدوں یعنی لائن آف کنٹرول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، تبدیلیاں صرف داخلی ہیں۔ بھارتی ریاستوں کی چودہ بار از سر نو حدبندیاں کی گئی،یہ معمول کا عمل ہے۔