نیویارک(سچ نیوز)امریکہ کے پاپ گلوکار مائیکل جیکسن نے عالمی سطح پر ایسی شہرت پائی کہ کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ ان کی موت کے بعد بھی ان کے مداحوں کی تعداد کروڑوں میں ہے لیکن اب ایک ڈاکومنٹری میں ان کی زندگی کا ایسا انتہائی شرمناک پہلو بے نقاب کر دیا گیا ہے کہ ہر سننے والا دم بخود رہ جائے۔میل آن لائن کے مطابق 4گھنٹے دورانیے کی اس ڈاکومنٹری کا نام ’لیونگ نیورلینڈ‘ (Leaving Neverland)ہے، جس کا پریمیئر امریکی ریاست یوٹاہ کے پارک سٹی میں ہونے والے سن ڈانس فلم فیسٹیول میں کیا گیا ہے اور یہ ڈاکومنٹری ایچ بی او اور چینل 4پر نشر ہو گی۔ اس میں یہ ہوشربا انکشاف کیا گیا ہے کہ مائیکل جیکسن نہ صرف ہم جنس تھے بلکہ بچوں میں جنسی رغبت رکھتے تھے اور انہوں نے متعدد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ ڈاکومنٹری میں مائیکل جیکسن کی زیادتی کا شکار ہونے والے لوگوں کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ڈاکومنٹری میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مائیکل جیکسن ایک کم عمر لڑکے کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرتے اور جب اس سے بھی کم عمر کوئی لڑکا انہیں ملتا تو اس کے لیے پہلے کو چھوڑ دیتے تھے۔ وہ ان بچوں کو جنسی تعلق کے عوض رقم اور زیورات بھی دیتے تھے۔ ایک لڑکے کے ساتھ انہوں نے شادی بھی کی۔ اس شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی اور انہوں نے کم عمر لڑکے کو ہیرے کی انگوٹھی بھی پہنائی۔مائیکل جیکسن کی زیادتی کا شکار ہونے والوں نے بتایا ہے کہ ”گلوکار ان کی برین واشنگ کرتے تھے، وہ انہیں اپنے والدین، بالخصوص خواتین سے متنفر کرتے تھے۔“مائیکل جیکسن کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے ویڈ روبسن کا کہنا تھا کہ ”ایک بار مائیکل جیکسن مجھے برہنہ اپنے سامنے بٹھا کر مجھے دیکھتے رہے اور خودلذتی کرتے رہے۔“ رپورٹ کے مطابق مائیکل جیکسن کی فیملی کی طرف سے اس ڈاکومنٹری کی سکریننگ روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تاہم ان کے بھتیجے نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ’سن ڈانس فلم فیسٹیول‘ کے سپانسرز کا بائیکاٹ کریں۔صحافی اور کالم نگار جیف ویلز نے یہ ڈاکومنٹری دیکھنے کے بعد اسے ’ہارر فلم‘ قرار دیا اورانتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ”مائیکل جیکسن شیطان صفت جنسی درندہ تھا۔“ہالی ووڈ فلموں کی نقاد اور صحافی مارا کینسٹین کا کہنا تھا کہ ”اس ڈاکومنٹری نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس مائیکل جیکسن کو ہم داد دیتے رہے اور اس کی تعریف کرتے رہے وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کا مرتکب نکلا۔“مارا کینسٹین نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر یہ بھی بتایا کہ ”اس ڈاکومنٹری میں دکھائے جانے والے وحشیانہ جنسی مناظر کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پریمیئر کے دوران سنیما کی لابی میں ماہرین نفسیات بھی موجود تھے تاکہ ڈاکومنٹری دیکھنے سے کسی کو ذہنی صدمہ لاحق ہو تو ماہرین فوراً اس کی مدد کر سکیں۔“