قیامت کے روز حکمرانوں کی پکڑ کیسے ہوگی؟خلیفہ ہارون الرشید کا وہ واقعہ جسے جان کر آج کے حکمران کانپ اٹھیں

قیامت کے روز حکمرانوں کی پکڑ کیسے ہوگی؟خلیفہ ہارون الرشید کا وہ واقعہ جسے جان کر آج کے حکمران کانپ اٹھیں

عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے وزیر فضل بن ربیع نے روایت کی ہے کہ میں خلیفہ ہارون الرشید کے ہمراہ مکہ مکرمہ گیا ۔ جب ہم حج کرچکے تو خلیفہ ہارون الرشید نے مجھ سے فرمایا: کیا اَولیاء اللہ میں سے کوئی یہاں موجود ہیں‘ تاکہ ہم اُن کی زیارت کریں؟ میں نے عرض کیا: ہاں کیوں نہیں۔ حضرت عبدالرزاق صنعانی یہاں موجود ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے فرمایا: مجھے اُس کے پاس لے چلو۔ چنانچہ ہم اُن کے پاس گئے اور کچھ دیر تک اُن سے گفتگو کرتے رہے۔ جب ہم نے واپسی کا قصد کیا تو خلیفہ ہارون الرشید نے اِشارہ فرمایا کہ اِن سے پوچھو کہ کیا اِن پر کچھ قرضہ تو نہیں ہے؟ میں نے اُن سے پوچھا: تو اُنہوں نے فرمایا: ہاں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے فرمایا: اُن کا قرضہ اَدا کردینا ۔خلیفہ ہارون الرشید نے وہاں سے نکل کر کہا، اے فضل بن ربیع میرا دِل چاہتا ہے کہ اُن سے زیادہ بزرگ آدمی کو دیکھوں۔ میں نے عرض کیا: حضرت سفیان بن عینیہ بھی یہاں موجود ہیں۔ تو آپ نے فرمایا:چلو! اُن کے پاس چلیں ‘ ہم اُن کے پاس گئے اور کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ جب ہم نے واپس ہونے کا اِرادہ کیا تو خلیفہ ہارون الرشید نے مجھے اِشارہ فرمایا کہ اِن سے اِن کے قرضہ کے بارے میں پوچھو۔ میں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا:ہاں! میرے ذمہ قرضہ ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے حکم فرمایا‘ تو اُن کا قرضہ اَدا کردیا گیا۔وہاں سے باہر نکلے تو ایک بار پھر خلیفہ ہارون الرشید نے کہا  اے فضل بن ربیع! ابھی تک میرا مقصود حاصل نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا: مجھے یاد آگیا کہ حضرت سیّدنا فضیل بن عیاض بھی یہاں موجود ہیں۔ چنانچہ میں خلیفہ ہارون الرشید کو اُن کے پاس لے گیا۔ آپ اُس وقت جھروکہ میں بیٹھے قرآنِ مجید پڑھ رہے تھے۔ ہم نے دَروازہ کھٹکھٹایا ‘ تو آپ نے پوچھا:کون ہے؟ میں نے جواب دیا: اَمیرالمؤمنین ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہمیں اَمیرالمؤمنین سے کیا کام ‘ میں نے عرض کیا: سُبْحَانَ اللّٰہِ ! اِما م الانبیاء حضورؐ پاک نے اِرشاد  فرمایا ، بندہ کو جائز نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جلَّ شانہٗ کی اِطاعت میں اپنے نفس کو ذَلیل کرے‘‘۔حضرت فضیل بن عیاض نے اس کے جواب میں کہا ، ہاں! کیوں نہیں‘ لیکن راضی بقضا اَہلِ رضا کے نزدیک رضا ہمیشہ کی عزّت ہے‘‘۔تو اِسے میری ذلت سمجھتا ہے لیکن میں حکمِ اِلٰہی پر راضی ہونے کی وجہ سے اِس کو اپنی عزّت سمجھتاہوں۔ اِس کے بعد نیچے اُتر آئے اور دَروازہ کھولا اور چراغ بجھادیااور ایک کونہ میں کھڑے ہوگئے۔ یہاں تک کہ خلیفہ ہارون الرشید ‘ آپ کو مکان کے اَندر تلاش کرنے لگے۔ خلیفہ ہارون الرشید کا ہاتھ آپ سے ٹکرایا ‘ تو آپ نے فرمایا: کاش وہ ہاتھ جس سے زیادہ نرم میں نے کوئی ہاتھ نہیں دیکھا۔ اگر وہ عذابِ الٰہی سے چھوٹ جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ یہ سُن کر خلیفہ ہارون الرشید رونے لگے اور اِتنے روئے کہ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے توعرض کیا: اے فضیل بن عیاض !

Exit mobile version