لاہور(سچ نیوز)پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے شیخ رشید احمد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر عوام کو غلط بیانی سے گمراہ کرنے کے بجائے عملی کام کر کے دکھائیں،65 سال سے زائد عمر کے افراد کے ٹکٹ میں 50 فیصد رعایت ان کے دور میں شروع کی گئی، موجودہ وزیر اس کا جھوٹا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں،جھوٹ پکڑا جاتا ہے کیونکہ جھوٹ کی لمبی عمر نہیں ہوتی،ضمنی انتخاب میں عمران خان نے میرے مقابلے میں ایک اور اے ٹی ایم مشین کو ٹکٹ دے دیا ۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ نئی ٹرینیں چلانا اتنا آسان نہیں جتنا شیخ رشید بتا رہے ہیں،جس ٹریک پر نئی ٹرین چلانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ بھی میرے دور میں ہی بنایا گیا تھا اور اسے بولان میل کے لیے تیار کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ریلوے کا مالی خسارہ کسی صورت دو سے تین سال میں کم نہیں کیا جا سکتا بلکہ دو نئی ٹرینیں چلانے کا مطلب اس خسارے میں کروڑوں کا اضافہ کرنا ہے،قومیں ایک رات میں بنتی ہیں اور نہ ہی ملک اس طرح آگے بڑھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹرینوں کی اَپ گریڈیشن میرے دور میں ہوئی ،اب جس شخص کو ریلوے میں بٹھا دیا گیا ہے وہ سگار پینے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا ،ریلوے افسر اس سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ملک کا سلیکٹیڈ وزیر اعظم کہتا تھا کہ میں نوجوانوں کو آگے لاؤں گا لیکن اب آتے ہی انہوں نے لوگوں کو نوکریوں سے نکالنا شروع کر دیا ہے ،منی بجٹ لارہے ہیں جس میں غریبوں پر مہنگائی کا طوفان مسلط کیا جا رہا ہے ،ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ، اب ضمنی انتخاب میں بھی انہوں نے میرے مقابلے میں ایک اے ٹی ایم مشین کو ٹکٹ دیا ہے،سیاسی آدمی کو باتیں نہیں قوم کو ڈیلیور کرنا چاہئے ،ضمنی انتخاب میں میرے مقابلے میں جس شخص کو تحریک انصاف نے ٹکٹ دیا ہے وہ اسی حلقے سے دو بار قومی اسمبلی کا منتخب ہوا ،وہ بتائے اس نے حلقے کی عوام کے لئے کیا کام کیا ہے؟تین مہینے پہلے یہ شخص(ہمایوں اختر خان )ہماری پارٹی میں تھا ،ہم نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گیا ۔
واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ریلوے میں خسارے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے درمیان تلخ جملوں کو تبادلہ ہوا جس کے بعد عدالت نے سابق وزیر ریلوے کو آڈٹ رپورٹ پر ایک ماہ میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا ۔